Maktaba Wahhabi

41 - 64
لیکن اگر اسکے پاس حقیقی ضروریات کے علاوہ اتناسامان اور نقدی موجود ہو کہ وہ اس کے ذریعے اپنا قرض اُتار سکتا ہے اور اپنا ذریعہ معاش بھی برقرار رکھ سکتا ہے تو پھر اس پر زکوٰۃ فرض ہوگی۔ ان دونوں صورتوں میں فرق کی وجہ یہ ہے کہ اگر مطلق طور پر ہر مقروض پر زکوٰۃ فرض قرار دے دی جائے توپھربہت سے مقروض حضرات کے لئے یہ تکلیف مالا یطاق ہوگی جبکہ ایسا شخص جو حقیقی ضروریات سے بھی تہی دامن ہو اور اس کے ساتھ مقروض بھی ہو، تو شریعت نے اسے مستحق زکاۃ کی فہرست میں شمار کیا ہے اور اگر ہرمقروض کو علیٰ الاطلاق زکوٰۃ سے مستثنیٰ قرار دے دیا جائے تو پھر بہت سے اغنیا اور صاحب ِزکوٰۃ اس فریضے سے بری ہوجائیں گے کیونکہ کوئی شخص کتنا ہی مالدار کیوں نہ ہو، وہ اپنے کاروبار کو ترقی دینے کے لئے مزید قر ض بھی لیتا ہے اور ویسے بھی کاروبار میں قرض کا لین دین معمول کی بات ہے، اس لئے جو شخص مقروض ہو اسے چاہئے کہ اپنے کل قرض کی رقم کا حساب لگائے پھر اپنی بنیادی ضروریات سے زائد مال کا حساب لگائے اور اس میں سے قرض کو منہا کردے پھر جو رقم باقی بچے، اس میں سے زکوٰۃ ادا کردے۔ 7. مقررہ نصاب کو پہنچ چکا ہو گزشتہ سطور میں زکوٰۃ کی جن شروط کا تذکرہ گذرا ہے، ان میں ایک یہ بھی تھی کہ متعلقہ مال زائد از ضروریات ہو، لیکن اس زائد از ضرورت کا یہ معنی نہیں کہ جتنا بھی مال زائد از ضرورت ہوگا، اس کی زکوٰۃ نکالی جائے گی بلکہ زائد از ضرورت کی شریعت نے ایک حد متعین کردی ہے جسے ’نصابِ زکوٰۃ‘ کہا جاتا ہے۔ جب زائد از ضرورت مال اس نصاب کو پہنچے گا تبھی اس پر زکوٰۃ فرض ہوگی، وگرنہ نہیں ۔ ٭٭
Flag Counter