کو اصل مال کے سال میں ضم کیا تاکہ یہ خرابیاں دور ہوسکیں جس سے یہ معلوم ہوا کہ ان خرابیوں کودور کرنا ہی اصل علت ہے جس کو اختلافی صورت پربھی منطبق کرنا چاہئے۔ مویشیوں میں امام مالک کی رائے بھی امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے مطابق ہے اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا ثمان (نقود) کے بارے میں یہی مسلک ہے اور حقیقت یہ ہے کہ مسلک حنفی تطبیق میں زیادہ آسان اور پیچیدگی سے پاک ہے، اس لئے میرے نزدیک امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا مسلک زیادہ قابل قبول ہے۔‘‘ (فقہ الزکوٰۃمترجم: ج۱/ ص۲۲۳ تا۲۲۵) واضح رہے کہ علامہ یوسف قرضاوی نے جو مذکورہ بالا (تیسری) صورت میں اپنا راجح نکتہ نظر پیش کیا ہے، ہمیں اس سے اختلاف ہے۔ اس لئے کہ یہاں جس علت (یعنی حرج) کو بنیاد بنایا گیا ہے وہ سرے سے بنیاد ہی نہیں بنتی۔ یعنی اگر کسی کو دورانِ سال نئے جانور حاصل ہوتے ہیں جو پہلے جانوروں کی حاصل پیدائش نہیں تو ان نئے جانوروں کو نشان زد کرکے بھی علیحدہ کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح پہلے جانوروں اور نئے جانوروں میں اختلاط کی وہ پریشانی جسے موصوف امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے پیش کررہے ہیں ، پیدا ہی نہیں ہوگی، جبکہ مویشی پالنے والوں کے ہاں یہ طریقہ عرصہ دراز سے کامیاب چلا آرہا ہے۔ واللّٰه أعلم 6. صاحب ِنصاب مقروض نہ ہو وجوب زکوٰۃ کی ایک شرط یہ ہے کہ صاحب ِزکوٰۃ مقروض نہ ہو۔ اس شرط کی تائید کے بارے میں چند صریح روایات و آثار بھی منقول ہیں مگر ان کی صحت میں کلام ہے جبکہ دیگر عمومی دلائل سے بھی فقہا نے اس شرط کو ثابت کیا ہے۔ مثلاً ایک شخص کے پاس ایک لاکھ رقم موجود ہے اور اتنی ہی رقم اس پر قرض بھی ہے تو اس قرض کی وجہ سے اس شخص سے زکوٰۃ معاف ہوجائے گی۔ بلکہ قرض کی بعض صورتیں ایسی ہیں جن میں مقروض شخص مستحق زکوٰۃ بن جاتاہے۔ اسی لئے زکوٰۃ کے آٹھ مصارف میں سے ایک مصرف ’مقروض‘ بھی ہے۔ لیکن اس حوالے سے یہ بات یاد رہے کہ زکوٰۃ اسی مقروض سے معاف ہوگی جس کے پاس بنیادی ضروریات کے علاوہ اتنا سامان یا نقدی موجود نہ ہو جس کے ذریعے وہ اپنا قرض اُتار سکتا ہو۔ |