Maktaba Wahhabi

39 - 64
ملاحظہ ہو(الفقہ الاسلامی:ج۲/ ص۸۵۸، ۸۵۹) 3. اس کے علاوہ ایک تیسری صورت بھی ہے جسے متقدمین نے بیان کیا ہے۔ علامہ یوسف قرضاوی اسے بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ: ’’اگر مالِ مستفاد (یعنی دورانِ سال حاصل ہونے والا مال) اس مال کی نوع سے ہو جو اس کے پاس بقدرِ نصاب پہلے سے موجود ہے اور اس کے اوپر سال کا کچھ حصہ گزر چکا ہو مثلاً یہ کہ کسی کے پاس چالیس بکریاں ہوں جن پر سال کاکچھ حصہ گزر چکا ہو اور دورانِ سال وہ سو(۱۰۰)بکریاں اور خرید لے یا اسے ہدیہ کردی جائیں تو امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے مطابق اس مالِ (مستفاد) پر سال گزرنے پر زکوٰۃ واجب ہوگی (سال سے پہلے نہیں ) مگر امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ مال بھی پہلے مال میں باعتبارِ سال ملا دیا جائے گا اور وہ سارے مال کی اس وقت زکوٰۃ ادا کردے گا جب اس مال کا سال پورا ہو جو اس کے پاس پہلے سے موجود تھا۔ اس لئے کہ اس مال کو باعتبارِ نصاب تو ضم کیا جائے گا تو لازم ہوا کہ اسے باعتبارِ حول (سال) بھی ضم کردیا جائے۔ جیسے جانوروں کے بچے (باعتبارِ نصاب اور باعتبارِ سال ضم ہوجاتے ہیں ) نیز یہ کہ اس مالِ مستفاد کو باعتبارِ سال جدا رکھنے میں جانوروں کی زکوٰۃ میں تجزیہ کرنا ہوگا (کہ فلاں اور فلاں جانور کی یہ زکوٰۃ ہے اور فلاں اور فلاں کی یہ ہے) اور وجوبِ زکوٰۃ کے اوقات میں فرق ہوجائے گا۔ (مثلاً چالیس بکریوں کی زکوٰۃ محرم میں عائد ہورہی ہے اور باقی چالیس کی رمضان میں عائد ہوگی) اور اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ مالک کو اپنی ملکیت کی تاریخیں بھی یاد رکھنا پڑیں گی اور یہ بھی حساب رکھنا پڑے گا کہ فلاں ملکیت پرکس وقت زکوٰۃ واجب ہورہی ہے اور کس قدرہو رہی ہے اور جو زکوٰۃ واجب ہو اس کی ادائیگی کی مقدار اس کو میسر اور اس کو ادا کرنا اس کے لئے ممکن ہو اور اس طرح یہ سلسلہ سارا سال چلتا رہے گا جو ظاہر ہے کہ بڑی تنگی کا باعث ہوگا اور فرمانِ الٰہی ہے: ﴿وَمَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِیْ الدِّیْنِ منْ حرَجٍ﴾ (الحج:۷۸) ’’اور دین میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی‘‘ اس حرج (تنگی) کو دور کرنے کی غرض سے شریعت ِاسلامیہ نے پچیس سے کم اونٹوں پر اونٹوں کی غیرجنس سے زکوٰۃ فرض کی ہے (یعنی بکری) اور مویشیوں میں ’اوقاص‘ (نصاب زکوٰۃ میں وہ وقفے جو دو مقررہ مقداروں کے درمیان آتے ہیں ) رکھے اور فوائد اور پیداوار
Flag Counter