دورانِ سال حاصل ہونے والا اضافی مال دورانِ سال حاصل ہونے والے اضافی مال کی تین صورتیں ہیں : 1. ایک تو یہ کہ وہ اضافی مال پہلے مال ہی کا نتیجہ اور فائدہ ہو مثلاً پہلے سے موجود جانوروں کے مزید بچے پیدا ہوجائیں یا کاروبار میں نفع ہو تواس نوعیت کے اضافی مال کو پہلے سے موجود مال ہی کے ساتھ ضم سمجھا جائے گا اور گزشتہ مال کے ساتھ اسے بھی زکوٰۃ میں شامل کیا جائے گا۔ جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے زکوٰۃ وصول کرنے والے عامل سے کہا کہ:’’اعتد علیہم بالسخلۃ یروح بھا الراعی علی یدیہ ولا تأخذھا منہم‘‘ ’’ زکاۃ کے جانوروں میں اس بچے کو بھی شمار کرو جسے چرواہا اپنے ہاتھوں میں اٹھائے پھرتا ہے البتہ یہ بچہ بطور زکاۃ وصول نہ کرنا۔‘‘ (نصب الرایۃ: ۳۵۵/۲، مؤطا ؛کتاب الزکاۃ(۲۶) ڈاکٹر وہبہ الزحیلی فرماتے ہیں کہ اس مسئلہ میں مذاہب ِاربعہ کے تمام اہل علم کا اتفاق ہے کہ جانوروں کے بچے بھی نصاب زکاۃ میں شمار کیے جائیں گے۔ (الفقہ الاسلامی وادلتہ: ج۲/ص۸۵۷) واضح رہے کہ چالو کاروبار میں رأس المال پر حاصل ہونے والا منافع اصل مال کے تحت شمار ہوگا اور اس پر زکوٰۃ رأس المال کے حساب سے نکالی جائے گی مثلاً اگر ایک لاکھ سرمائے سے کاروبار شروع کیا گیا اور دورانِ سال ۱۰ ہزار کا نفع اِسی لاکھ سے حاصل ہوا تو سال کے اختتام پر ایک لاکھ دس ہزار سے زکوٰۃ نکالی جائے گی نہ کہ صرف لاکھ سے۔ البتہ ایک صورت اس سے مستثنیٰ ہے جو آگے آرہی ہے۔ 2. دوسری صورت یہ ہے کہ دورانِ سال حاصل ہونے والا مال جنس یا نوعیت کے لحاظ سے پہلے مال سے مختلف ہو مثلاً اگر پہلے جانور تھے اور دورانِ سال نقد حاصل ہوگئی یا ایک لاکھ سرمایہ تھا اور دورانِ سال مزید رقم حاصل ہوگئی مگر یہ رقم سرمایہ کے نفع کے طور پر نہیں بلکہ کسی اور ذریعے (ہبہ، وراثت وغیرہ) سے حاصل ہو تو ایسی نئی رقم کو پچھلی رقم کے ساتھ نہیں ملایا جائے گا بلکہ اسے الگ شمار کرتے ہوئے ایک سال کا دورانیہ گزارا جائے گا۔ مزید تفصیل کے لئے |