Maktaba Wahhabi

37 - 64
(مزید تفصیل کے لیے دیکھئے مجموع الفتاویٰ از شیخ ابن باز رحمۃ اللہ علیہ :ج۱۴/ص ۱۶۴،۱۷۲، فتاوی اللجنۃ الدائمۃ ج۹ ص ۳۱۴،۳۳۴،شرح مسلم از نووی ج ۹ص ۳۱۴،۳۳۴،تفہیم المسائل از گوہر رحمن ج ۳ص ۱۳۳ ،۴۰۵، فقہ الزکاۃ ازیوسف قرضاوی ج۱ص ۴۳۶،۴۳۷،فتاوی اہلحدیث از حافظ عبد اللہ روپڑی ج۲ص ۵۲۲،احکام ومسائل از مولانا عبد المنان نور پوری ج۱ص ۲۷۴) 5. ایک سال کا عرصہ گزر جائے یعنی زکوٰۃ اس مال سے ادا کی جائے گی جس میں دیگر شرائط کے ساتھ یہ شرط بھی پائی جاتی ہو کہ وہ مال صاحب ِمال کے پاس ایک سال تک رہا ہو۔ سال پورا ہونے پر اس کی زکوٰۃ نکالنا فرض ہے جبکہ سال پورا ہونے سے پہلے ہی اگر کوئی چاہے تو پھر بھی زکوٰۃ دے سکتا ہے۔ دورانِ سال کی شرط کی دلیل یہ حدیث ِنبوی ہے: ’’لازکوٰۃ في مال حتی یحول علیہ الحول‘‘ (المغنی:ج۴/ص۴۶) اگرچہ اس روایت کی سند میں ضعف ہے اور ایک سال مدت کو معتبر تسلیم کرنے میں بھی بعض اہل علم نے اختلاف کیا ہے تاہم ہمارے نزدیک یہی رائے مبنی برانصاف بھی ہے اور اکثر وبیشتر ائمہ سلف نے اسی رائے کو اختیار کیا ہے۔(دیکھئے: زاد المعاد ج۱/ص۳۰۷) حتی کہ امام ابن منذر نے اس شرط کے وجوب پر اجماعِ امت کا بھی دعویٰ کیا ہے۔ (دیکھئے الاجماع: ص ۴۴) البتہ بعض چیزیں اس سے مستثنیٰ ہیں مثلاً کھیتی کی زکوٰۃ (جسے ’عشر‘ کہا جاتاہے) اس وقت نکالی جائے گی جب کھیتی پکنے کے بعد کاٹ لی جائے۔ جیسا کہ قرآنِ مجید میں ہے: ﴿وَاٰتُوْا حَقَّہٗ یَوْمَ حَصَادِہٖ ﴾ (الانعام:۱۴۱) اسی طرح کانوں اور مدفون خزانوں کی زکوٰۃ کے لئے بھی سال کی شرط نہیں بلکہ جب خزانہ حاصل ہوگا تبھی اس کی زکوٰۃ (یعنی پانچواں حصہ) دیا جائے گا۔
Flag Counter