Maktaba Wahhabi

36 - 64
ہے لہٰذا جس کے پاس ۵،۱۰ لاکھ کا ذاتی مکان ہو، لاکھوں روپے کی گاڑی (ذاتی سواری) ہو اس پر بہرحال زکوٰۃ فرض قرار دی جانی چاہئے۔ اگرچہ غنی ہونا بھی وجوبِ زکوٰۃ کی ایک شرط ہے جس کی تفصیل اسی شرط کے آغاز میں ہم پیش کر آئے ہیں لیکن غنا کی جو حدود شریعت نے متعین کی ہیں ، وہ بھی ہمیں مدنظر رکھنا ہوں گی مثلاً کسی شخص کے پاس ۴ اونٹ یا ۳۹ بکریاں یا ۱۹۹ درہم چاندی یا ۱۹ دینار سونا ہو تو کیا وہ شخص غنی نہیں ؟ لیکن اس کے باوجود شریعت نے اس پر زکوٰۃ فرض نہیں کی جب تک کہ اس کا نصاب پورا نہ ہوجائے۔ اسی طرح محض رہائشی مکان اور سواری کی ملکیت رکھنے والے کو شریعت نے ’غنی‘ قرار دے کر اس پر زکوٰۃ فرض نہیں کی جیسا کہ گذشتہ دلائل سے ثابت ہوچکا ہے۔ بلکہ اس کے برعکس واقعاتی طور پر یہ بات ثابت ہے کہ بہت سے لوگ ذاتی رہائش اور ذاتی سواری کے مالک ہونے کے باوجود زکوٰۃ کے مستحق ہوتے ہیں ۔ ٭ اسی طرح ایک شبہ یہ اُٹھایا جاتا ہے کہ جس دور میں ذاتی رہائش اور سواری کو مستثنیٰ قرار دیا گیاتھا تب ان چیزوں کی مالیت نہایت معمولی تھی مگر اب چونکہ ان کی مالیت بہت بڑھ چکی ہے اس لئے ان پربھی زکوٰۃ فرض ہونی چاہئے۔ اس اعتراض کی بھی کوئی حقیقت نہیں اس لئے کہ دورِ حاضر میں رہائشی مکانوں اور جدید سواریوں کی قیمتیں کتنی ہی کیوں نہ بڑھ جائیں جب شریعت نے ان پر زکوٰۃ عائد نہیں کی تو ہم ان پر زکوٰۃ عائدکرنے والے کون ہوتے ہیں ! جبکہ دوسری بات یہ ہے کہ اس دور میں بھی اونٹ، گھوڑے اسی طرح قیمتی تھے جس طرح دورِ حاضر کی گاڑیاں ، حتیٰ کہ اس سلسلہ میں بعض ایسے واقعات بھی ملتے ہیں کہ ایک ایک گھوڑا سو سو اونٹوں سے قیمتی ہوتا تھا۔(دیکھئے نصب الرایہ: ۳/۳۵۹) اور آج بھی ایسے قیمتی گھوڑے موجود ہیں ۔ اس لئے ذاتی استعمال کی چیزوں پر زکوٰۃ فرض قرار دینا شریعت سے بغاوت ہے اور یہ کوئی نئی رائے نہیں بلکہ گزشتہ چودہ صدیوں سے فقہائے امت کا اس پر اتفاق رہا ہے۔جیسا کہ خود وہبہ زحیلی نے بھی اس کا اعتراف کیا ہے۔
Flag Counter