اس مسئلہ پر اجماع کا دعویٰ نقل کرتے ہیں کہ’’وأجمعوا علی أن فی العروض التی تدار للتجارۃ الزکوٰۃ إذا حال علیھا الحول‘‘ (الاجماع:ص۱۴۵) ’’زکوٰۃ صرف اس مال اور سامان میں ہوگی جو تجارت کے لئے رکھا ہو اور اس پرایک سال بھی گزر چکا ہو۔‘‘ گزشتہ چودہ صدیوں میں کسی نے بھی اس مسئلہ میں اختلاف نہیں کیا تاہم دورِ حاضر میں بعض عرب علما نے اس میں اختلاف کیا اور اب یہ آواز پاکستان میں بھی سنائی دی جارہی ہے۔ اگرچہ اس مسئلہ میں ہم تو صحابہ و تابعین اور جمہور اُمت کے ساتھ ہیں تاہم اس سلسلہ میں پیش کئے جانے والے بعض شبہات کاجائزہ لینا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے : ٭ اس سلسلہ میں ڈاکٹر وہبہ الزحیلی رقم طراز ہیں کہ ’’وبالرغم من أن جمہور فقھائنا لم ینصوا علی وجوب الزکوٰۃ فی ھذا النوع فإنی أری ضرورۃ الزکوٰۃ فیھا لوجود علۃ وجوب الزکوٰۃ فیھا وھی النماء والحکم یدور مع علتہ وجودا أو عدما… (الفقہ الاسلامي:ج۲/ص۸۶۴) ’’اگرچہ جمہور فقہا نے رہائشی گھروں ، گھریلو سامان، آلات تجارت اور ذاتی استعمال کی سواریوں پر زکوٰۃ کو فرض قرار نہیں دیا جیساکہ ہم پہلے بھی ذکر کر آئے ہیں ۔ لیکن میں ان تمام چیزوں پربھی زکوٰۃ فرض خیا ل کرتا ہوں ۔ اس لئے کہ وجوب زکوٰۃ کی ایک علت نما (بڑھوتری، افزائش) بھی ہے اور وہ ان سبھی چیزوں میں پائی جاتی ہے اور حکم کا دارومدار چونکہ علت پر ہوتا ہے۔ اس لئے ان پر زکوٰۃ فرض ہونی چاہئے۔‘‘ ’نمو‘ کیا ہے، اس کی تفصیل شرط نمبر ۳ کے تحت ہم ذکر کر آئے ہیں تاہم محض ’نمو‘ کو علت بناکر ہر مالِ نامی کو موجب ِزکوٰۃ قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ ان میں سے بعض چیزوں کو شریعت نے مستثنیٰ قرار دے دیا ہے مثلاً رہائشی مکان، گھریلو استعمال کی چیزیں ، ذاتی سواری اور آلاتِ تجارت وغیرہ (یاد رہے کہ آلاتِ تجارت کے حوالے سے مزید تفصیل شرط نمبر ۷ کے ضمن میں آرہی ہے) اور اس استثنیٰ پر اُمت کااجماع ہوچکا ہے۔ ٭ اس ضمن میں ایک یہ شبہ پیش کیا جاتا ہے کہ چونکہ جوشخص ’غنی‘ ہو، اس پر زکوٰۃ فرض |