ذاتی استعمال کی اشیا اور مختلف شبہات گزشتہ چودہ صدیوں سے اُمت مسلمہ کے اہل علم و دانش کا یہ متفقہ فیصلہ چلاآرہا ہے کہ ذاتی استعمال کی اشیا خواہ وہ کتنی ہی قیمتی کیوں نہ ہوں ، ان پرزکوٰۃ فرض نہیں ہے۔ کیونکہ اس سلسلہ میں قرآن و سنت میں ایک بھی ایسی دلیل موجود نہیں جس میں یہ صراحت ہو کہ ذاتی استعمال کی اشیا (مثلاً گھر، سواری وغیرہ) پر زکوٰۃ ہے جبکہ اس کے برعکس بعض ایسے دلائل موجود ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ذاتی استعمال کی اشیا پر زکوٰۃ فر ض نہیں ۔ جیسا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لیس علی المسلم صدقۃ فی عبدہ ولا في فرسہ‘‘ (بخاری؛۱۴۶۴) ’’کسی مسلمان پر اس کے غلام اور گھوڑے میں زکوٰۃ فرض نہیں ہے‘‘ مذکورہ روایت میں غلام اور گھوڑے کا ذکر ہے، اس لئے کہ اہل عرب کے ہاں یہ دو چیزیں ذاتی استعمال کے لئے معروف تھیں ۔غلام گھریلو ضروریات کے لئے اور گھوڑا (جہاد وقتال کے علاوہ) ذاتی سواری کے لئے۔ اسی طرح خچر اور گدھا بھی بطورِ سواری استعمال کیا جاتا تھا، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بھی زکوٰۃ سے مستثنیٰ قرار دے دیا۔ (دیکھئے دارقطنی:۹۵) انہی چیزوں پر قیاس کرتے ہوئے دورِ حاضر کی نئی سواریاں (مثلاً موٹر سائیکل، کار وغیرہ) بھی زکوٰۃ سے مستثنیٰ قرار دی جائیں گی۔ جبکہ ذاتی استعمال کی دیگر اشیا مثلاً رہائشی مکان، گھریلو سامان وغیرہ کو بھی غلام پر قیاس کرتے ہوئے زکوٰۃ سے مستثنیٰ قرار دیا جائے گا۔ اس کی تائید دو باتوں سے ہوتی ہے۔ ایک تو یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذاتی استعمال کی چیزوں پر کبھی زکوٰۃ عائد نہیں فرمائی اور دوسری یہ کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کابھی یہی موقف رہا ہے مثلاً حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: ’’لیس في العروض زکوٰۃ إلا ما کان للتجارۃ‘‘ (سنن بیہقی: ج۴/ ص۱۴۷)’’گھریلو استعمال اور صرف کی چیزوں میں کوئی زکوٰۃ نہیں اِلا یہ کہ یہ چیزیں تجارت کے لئے رکھی ہوں ۔‘‘ یہی موقف حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ، ابن عباس رضی اللہ عنہما اور دیگر صحابہ کا تھا جبکہ اس مسئلہ میں صحابہ و تابعین اورائمہ سلف وغیرہ میں سے کسی نے بھی اختلاف نہیں کیابلکہ امام ابن منذر تو |