Maktaba Wahhabi

33 - 64
ضرورت بلکہ زندگی کا لازمی حصہ بن چکی ہیں ۔ اور پھر ہر انسان کی اشیائِ ضرورت دوسرے سے مختلف ہوتی ہیں ۔ مثلاً ایک شخص کے پاس کسی وجہ سے مہمانوں کی آمدورفت کا تانتا بندھا رہتا ہے تو اس کی ضروریات اس شخص سے مختلف ہوں گی جس کے پاس مہینوں بعد ہی کوئی مہمان آتا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ شریعت نے اس بات کا تو خیال رکھا ہے کہ زکوٰۃ اس مال پر نکالی جائے جو زائد از ضرورت ہو مگر شریعت نے ضروریات اور زائد از ضروریات کا تعین نہیں کیا کہ فلاں فلاں اشیا تو ضروریات میں شامل ہیں اور فلاں فلاں اس سے مستثنیٰ۔ بلکہ حاجاتِ اصلیہ (یعنی اشیاءِ ضرورت) اور زائد از ضرورت کا تعین انسان کی نیت، حالات کی مناسبت اور معاشرے کے عرف و معمول پر چھوڑ دیا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں ایک عجیب صورت یہ پیدا ہوچکی ہے کہ بہت سی غیر ضروری چیزیں ہم اپنی بنیادی ضروریات کی چیزیں سمجھ بیٹھے ہیں اور بہت سی ’آسائشات‘ کو ہم اپنی ’احتیاجات‘ کی حیثیت دے چکے ہیں ۔ علاوہ ازیں بہت سی چیزیں ایسی ہیں جنہیں محض خوبصورتی اور خواہش کثرت کے پیش نظر ہم اپنے گھریلو سامان میں شامل کرنا ’ضرورت‘ سمجھنے لگے ہیں ۔ اسی طرح اگر ۵،۱۰ مرلہ کے ایک مکان میں رہائشی ضرورت بآسانی پوری ہوسکتی ہے توپھر بھی ہم اس کی جگہ ایک دو کنال رقبہ پرمشتمل مکان کو رہائشی ضرورت کا ہدف بنالیتے ہیں ۔ اگر ایک گاڑی ذاتی استعمال کے لئے کافی ہوسکتی ہے تو پھر بھی ایک کی بجائے دو یا تین گاڑیاں ہی اب ہماری ’ضروریات‘ میں شامل ہوگئی ہیں ۔ حتیٰ کہ بعض لوگ محض زکوٰۃ سے بچنے کے لئے زائد نقدی سے کوئی ایسی شے خرید لیتے ہیں جو ایک طرف گھریلو استعمال میں شامل ہونے کی وجہ سے زکوٰۃ سے مستثنیٰ ہوجاتی ہے اور دوسرے طرف حسب ِضرورت اسے نقد و نقد بیچنا بھی آسان ہوتا ہے۔ یہ رویہ اُصولی طور پر غلط ہے۔ اگر تو زکوٰۃ سے بچنے کی نیت سے کوئی ایسا حیلہ کیا جائے تو حاکم وقت زبردستی بھی زکوٰۃ وصول کرسکتا ہے اور اگر بے جا تعیش اور اسراف و تبذیر کے پیش نظر ایسا کیاجائے تو پھر اگرچہ ان ذاتی استعمال کی اشیاء پر زکوٰۃ فرض نہ ہوگی تاہم اس فضول خرچی کی اسلام مذمت ضرور کرتا ہے۔
Flag Counter