اس آیت کی تفسیر میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم و تابعین سے بھی یہی منقول ہے کہ اس ’عفو‘ سے مراد وہ چیز ہے جو اہل خانہ کی ضروریات سے زائد ہو۔ (تفسیر ابن کثیر:۱/۳۸۳) جبکہ بہت سی صریح احادیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے مثلاً (i انماالصدقۃ عن ظھر غنی (احمد:۲/۵۰۱) ’’زکاۃ صرف غنی پر فرض ہے۔‘‘ بعض شارحین نے اس کا یہ ترجمہ بھی کیا ہے کہ زکاۃ صرف اس پر فرض ہے جو زکاۃ دینے کے بعد بھی غنی رہے محتاج اور فقیر نہ ہو جائے۔ (دیکھئے شرح السنۃ :۶/۱۷۹) (ii لاصدقۃ إلا عن ظھر غنی (مسنداحمد :۲/۲۳۰) ’’ زکاۃ صرف غنی پر فرض ہے۔‘‘ (iii حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ ’’میرے پاس ایک دینار ہے (اس کا مصرف کیا ہو؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے اپنے اوپر خرچ کرلو۔ اس نے پھر عرض کیاکہ میرے پاس ایک اور دینار بھی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے اپنی بیوی پر خرچ کرو۔ اس نے عرض کیا کہ میرے پاس ایک اور بھی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے اپنی اولاد پر خرچ کرو۔ اس نے عرض کیا کہ میرے پاس ایک اور بھی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر جہاں مناسب سمجھو، اسے وہاں خرچ کرو۔‘‘ (مسلم؛کتاب الزکاۃ) یہ روایت اگرچہ نفلی صدقہ سے تعلق رکھتی ہے، تاہم یہاں محل استشہاد یہ ہے کہ صدقہ خواہ نفلی ہو یا فرضی، یہ اسی مال سے ادا کیا جائے گا جو زائد از ضرورت ہو۔ اس مسئلہ کا دوسرا پہلویہ تھا کہ انسان کی بنیادی و اصلی ضروریات کا دائرہ کیا ہے۔ اگرچہ اس سلسلہ میں مختلف فقہا نے اپنے اپنے ادوار کی مناسبت سے مختلف اشیا کو حاجاتِ ا صلیہ اور ضروریاتِ زندگی قرار دیا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ انہیں کسی خاص دور کی مناسبت سے حتمی طور پر متعین نہیں کیاجاسکتا کیونکہ حالات کی تبدیلی سے انسانی ضروریات کا دائرہ بھی بدلتا رہتا ہے۔ کبھی اگر دو چادریں ، ایک خیمہ یا جھونپڑی اور گدھا، گھوڑا وغیرہ ضروریاتِ زندگی متصور ہوتے تھے تو اب ان کی جگہ سلے ہوئے کپڑوں کے جوڑے، پختہ تعمیر شدہ مکان اور موٹر گاڑیاں اشیاءِ |