Maktaba Wahhabi

31 - 64
گھوڑے اور اس کے غلام میں صدقہ نہیں ۔‘‘ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ انسان کے ذاتی استعمال کے مال پر زکوٰۃ نہیں ہے۔ (شرح مسلم از نووی رحمۃ اللہ علیہ : ج۷/ص۵۵) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف نفع بخش و افزائش رکھنے والے مال پر زکوٰۃ عائد فرمائی ہے… (یعنی مویشیوں ، نقدی، فصلوں اور کانوں وغیرہ پر۔ناقل) احکامِ شرعیہ کی تعلیل کے قائل فقہا کا اس امر پر اتفاق ہے کہ ان مذکورہ بالااموال میں زکوٰۃ کے واجب ہونے کی علت یہ ہے کہ ان اموال میں یا تو بالفعل (فی الوقت) افزائش موجود ہے یا ان میں افزائش کی صلاحیت اور امکان موجود ہے۔‘‘ [فقہ الزکوٰۃ مترجم: ج۱/ ص۱۸۹،۱۹۰] واضح رہے کہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ دورِ حاضر میں رہائشی مکانوں اور بڑی بڑی عمارتوں ، فلیٹوں اور دکانوں وغیرہ میں بھی نمو کی خاصیت پائی جاتی ہے، اس لئے ان پربھی زکوٰۃ فرض ہونی چاہئے مگر ان کا یہ خیال غلط ہے۔کیونکہ ہر مالِ نامی محل زکاۃ نہیں ہوتا مثلا ذاتی استعمال کی اشیا میں گردش ایام کے ساتھ کتنا ہی نمو کیوں نہ ہوتا چلا جائے ان پر زکاۃ لاگو نہیں ہو گی اس لیے کہ شریعت نے انہیں زکاۃ سے مستثنیٰ قرار دے دیا ہے ، اسی طرح ذرائع پیداوار اور آلات تجارت کتنے ہی قیمتی کیوں نہ ہو جائیں انہیں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے زکاۃ سے مستثنیٰ کر دیا ہے۔ اس کی مزیدتفصیل شرط نمبر۴اور نمبر۷ کے تحت ملاحظہ فرمائیے۔ 4. زائد از ضرورت ہو زکوٰۃ اس مال سے دی جائے گی جو انسان کی بنیادی ضروریات سے زائد ہو۔ اس سلسلہ میں دو باتیں قابل غور ہیں : ایک تو اس شرط کی شرعی دلیل اور دوسری یہ کہ بنیادی انسانی ضروریات کا دائرہ کیا ہے؟ جہاں تک اس مسئلہ کی شرعی دلیل کا تعلق ہے تو اس سلسلہ میں فقہا قرآنِ مجید کی اس آیت سے استشہاد کرتے ہیں : ﴿وَیَسْأَلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَ قُلِ الْعَفْوَ﴾ (البقرۃ:۲۱۹) ’’لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ وہ (اللہ کی راہ میں ) کیا خرچ کریں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما دیجئے کہ (وہ خرچ کرو) جو تمہاری ضرورت سے زیادہ ہو۔‘‘
Flag Counter