اور کن بنیادوں پر اعتبار کیا جاسکتا ہے۔ یہ نکتہ بھی بیان کرنے کو جی چاہتا ہے کہ اشراقی مضمون نگار اگر اخلاقی اعتبار سے یہودیوں کو مسجد ِاقصیٰ کی تولیت کا حق دینا چاہتے ہیں ، تو اس کا سبب محض یہودی پراپیگنڈہ ہے، ورنہ قرآن و سنت سے ان کی ا خلاقی برتری کاجواز نہیں نکلتا۔ موصوف جب خود ہی تسلیم کرتے ہیں کہ ’’بنی اسرائیل کے اجتماعی طورپر شرک میں مبتلا ہوجانے اور شریعت کی تعلیمات کو پس پشت ڈال دینے کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے بابل کے بادشاہ بنوکدنصر کو ان پر مسلط کیا جس نے ۵۸۶ء ق م میں یروشلم پر حملہ کرکے ہیکل کو برباد کردیا۔‘‘ اور پھر عہد ِنامہ عتیق کی یہ عبارت بھی انہوں نے نقل کی ہے : ’’اگر تم میری پیروی سے برگشتہ ہوجاؤ اور میرے احکام اور آئین کو جو میں نے تمہارے آگے رکھے ہیں ، نہ مانو بلکہ جاکر اور معبودوں کی عبارت کرنے اور ان کو سجدہ کرنے لگو تو میں اسرائیل کو اس ملک سے جو میں نے ان کو دیا ہے، کاٹ ڈالوں گا اور اس گھر کو جسے میں نے اپنے نام کے لئے مقدس کیا ہے، اپنی نظر سے دور کردوں گا … اور وہ کہیں گے کہ خداوند نے اس ملک اور اس گھر سے ایسا کیوں کیا۔‘‘ مصنف کہتے ہیں کہ’’ہیکل سلیمانی کی تعمیر کے تقریباً ساڑھے تین سو سال بعد یہ پیش گوئی پہلی مرتبہ یرمیاہ نبی کے زمانے میں پوری ہوئی۔‘‘ ہم حیران ہیں کہ اس کے بعد یہودیوں کی کون سی اخلاقی حیثیت باقی رہ جاتی ہے کہ جس کی بنیاد پر وہ مسجد ِاقصیٰ کی تولیت کا دعویٰ کرسکیں ۔ جب تورات کی پیش گوئی کے مطابق ان کی عبادت گاہ یعنی ہیکل سلیمانی کو ان کی نظروں سے دور (تباہ) کردیا گیا ہے تو پھر وہ کون سا اخلاقی پہلو ہے جس کو بروئے کار لاکر مصنف یہودیوں کی وکالت میں ہلکان ہوئے جارہے ہیں ۔ جب خدائے بزرگ و برتر کی منشا نہیں کہ یہودیوں کے ہیکل کا وجود قائم رہے تو پھر اسلام کی ان تعلیمات کو اس مقدمہ میں بنیادکیسے بنایاجاسکتاہے جن کی رو سے مسلمانوں کو غیر مسلموں کی عبادات کے احترام کا درس دیا گیا ہے۔ اشراقی مصنف نے ان تعلیمات کا حوالہ دے کر اپنی عقل کو منشائے خداوندی سے بڑھا کر دکھانے کی جسارت کی ہے جسے ہم نرم ترین الفاظ میں افسوس ناک قرار دیتے ہیں ۔ ایک مغضوب و مذلول قوم کی وکالت کرکے نجانے کون سی خوشنودی ہے جس کا حصول ان کے پیش نظر ہے…!! [جاری ہے] |