مال اور روزگار کے مسائل شراب خانے کے مسلمان مالک کی دعوتِ طعام میں شرکت ٭ سوال ۱۶: کسی شراب خانے کا مالک یا اس میں کام کرنے والا مسلمان اپنے ہمسایوں اور رشتہ داروں کو کھانے پینے کی دعوت دے تو کیاو ہ اس کی دعوت قبول کرسکتے ہیں ؟ یا ان کے لئے اس کے ساتھ مل کر کھانا پینا حرام ہے؟ جواب:اس شخص کے اقارب اور ہمسایوں کے لئے جائز ہے کہ اس کی دعوت قبول نہ کریں تاکہ اس سے ناراضگی کا اظہار ہو، اور اس کے گناہ سے لاتعلقی کا اعلان ہو، اور اسے یقین ہوجائے کہ وہ جس گناہ میں ملوث ہے، اس کی وجہ سے لوگ اسے حقیر سمجھتے اور نفرت کرتے ہیں ۔ یہ طرزِعمل أمربالمعروف اور نہی عن المنکر میں شامل ہے جیسے جہاد سے پیچھے رہ جانے والے تین حضرات سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے بائیکاٹ کیا گیاتھا۔حتیٰ کہ اللہ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی کہ ان کی توبہ قبول ہوگئی ہے۔ اور یہ بھی جائز ہے کہ اس شخص کی دعوت قبول کر لی جائے لیکن اس کے ساتھ اسے نصیحت کی جائے اور اسے متنبہ کردیا جائے کہ اگر اس نے نصیحت قبول نہ کی تو آئندہ اس کی دعوت قبول نہیں کی جائے گی۔ ان دونوں میں سے جو طریقہ زیادہ مناسب محسوس ہو، جس سے اس کی اصلاح ہوجانے اور باطل سے باز آجانے کی زیادہ اُمید ہو، وہی طریقہ اختیار کرلیاجائے۔ اس مقام پر شارع کاایک مقصد ہے اور وہ ہے گناہ میں ملوث شخص کا گناہ سے باز آجانا۔ اُصول یہ ہے کہ کسی بھی مسئلہ میں جب شریعت کا مقصود واضح ہو، اور حصولِ مقصد کے متعلق ذرائع موجود ہوں ، تو اس کے لئے وہ طریقہ اختیار کرنا چاہئے جس سے مقصود حاصل ہونے کا زیادہ یقین ہو۔ تاہم یہ طعام بذاتِ خود حرام نہیں ، اس کا گناہ کمانیوالے پر ہے۔ حرمت کا تعلق خود اس شخص کی ذات سے ہے۔ ناجائز کمائی کے ذریعے حاصل ہونیوالے ہرکھانے کایہی حکم ہے۔ |