Maktaba Wahhabi

67 - 79
شادیاں زبانی ہوجاتی ہیں جنہیں سرکاری کاغذات میں درج نہیں کیاجاتا۔ زانیہ کے بچے کا مسئلہ اور اس کی نسبت؟ ٭ سوال ۱۴ :ایک واقعہ ہمارے علم میں آیا ہے کہ ایک مسلمان عورت سے ایک ہفتے کے اندر اندر کئی مردوں نے مباشرت کی۔ وہ اُمید سے ہوگئی، لیکن اسے معلوم نہیں کہ اس سے ہونے والے بچے کا باپ کون ہے؟ کیا وہ رسوائی کے ڈر سے اِسقاط کراسکتی ہے؟ اس کی توبہ کاکیاحکم ہے؟ بچہ کس کی طرف منسوب ہوگا؟ بالخصوص ان علاقوں کے حالات کے تناظر میں اس مسئلہ کا شرعی حل بڑا ضروری ہے۔ جزاکم اللہ جواب:بچے میں روح ڈالے جانے کے بعد اسقاط حرام ہونے پر علما کا اتفاق ہے، اگرچہ حالات کیسے ہوں ، اور اگرچہ طبی معائنہ سے معلوم ہوتا ہو کہ بچہ بگڑی ہوئی صورت والا (مثلاً لنگڑا، تین ہاتھ والا) ہے۔ البتہ اگر قابل اعتماد سپیشلسٹ ڈاکٹروں کابورڈ یہ فیصلہ کرے کہ حمل باقی رہنے کی صورت میں ماں کی جان کو یقینی خطرہ درپیش ہے تو اس وقت اسقاط جائز ہے۔ خواہ بچہ بگڑی ہوئی صورت والا ہو یا نہ ہو، تاکہ بڑے نقصان سے بچا جائے۔ صرف یہی ایک صورت ہے جس میں اس مرحلہ کے بعد بھی اسقاط کی گنجائش ہے۔ جان پڑنے سے پہلے اسقاط کے بارے میں فقہا کی آرا مختلف ہیں : زیادہ صحیح قول یہ ہے کہ جان پڑنے سے پہلے بھی اسقاط اصلاً منع ہی ہے۔کیونکہ وہ ایک مخلوق ہے جس کو زندگی ملنے والی ہے اور اس کے ابتدائی اسباب مہیا ہوچکے ہیں۔ اس وجہ سے اس کا حکم عزل سے مختلف ہے۔ البتہ اگر واضح مجبوری ہو تو اسقاط جائز ہوگا، تاہم مکروہ ہوگا۔ لہٰذا اس سوال کا دو ٹوک جواب تو تبھی دیا جاسکتا ہے جب یہ معلوم ہو کہ اس عورت کے پیٹ میں بچہ کتنی عمر کا ہے؟ اگر بچہ تخلیق کے ابتدائی مراحل میں ہے اور مفتی یہ محسوس کرتا ہے کہ عورت اپنے گناہ پرنادم ہے اور اپنی غلطی کی تلافی اور اصلاح چاہتی ہے اور اس فتویٰ کی وجہ سے اسے توبہ قائم رکھنے میں مدد ملتی ہے اور وہ اپنے ماحول سے ہم آہنگ ہوسکتی ہے، تب تو اُمید ہے کہ
Flag Counter