Maktaba Wahhabi

62 - 79
میں پھینک دیا جانا انتہائی ناگوار ہوتا ہے۔ اگر وہ اپنی دھمکی کو عملی جامہ پہناتی ہے تو اس کی نحوست اور سزا کا نشانہ دنیا اور آخرت میں وہ خود ہوگی۔ اس کی ذمہ داری اسی کے کندھوں پر ہوگی۔ہم اس خاتون کو، اور تمام دوسری خواتین کو بھی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ ارشاد مبارک یاد دلاناچاہتے ہیں : ’’جس عورت نے خاوند سے بلا وجہ طلاق مانگی، وہ جنت کی خوشبو نہیں سونگھے گی۔‘‘ ٭ ان ضروری باتوں کے بعد ہم کہتے ہیں : مذکورہ صورتِ حال میں اگر خاوند اسے اپنی طرف مائل کرنے میں اور خلع کے مطالبہ سے روکنے میں کامیاب نہیں ہوسکا تو اسے چاہئے کہ عورت کے خلع کا مطالبہ تسلیم کرلے۔ اس کے لئے جائز نہیں کہ اسے تنگ کرنے کے لئے اپنے نکاح میں رکھے، اور نہ کسی کو اس گناہ میں اس کی مدد کرنی چاہئے۔ اگر وہ اسے اچھی طرح رکھ نہیں سکا، تو کم از کم اچھی طرح آزاد کرنے سے تو اسے عاجز نہیں ہونا چاہئے۔ اِزدواجی زندگی کے دو پہلو ہیں : إمساک بمعروف (اچھے طریقے سے رکھنا) یا تسریح بإحسان (اچھے طریقے سے چھوڑ دینا) اور تیسری کوئی صورت جائز نہیں ۔ ٭ اسلامک سنٹرز(جو غیر مسلم ممالک میں قائم ہیں ) رائج قوانین کی حدود میں ظالم خاوند کی طرف سے عورت کو طلاق دینے کا حق رکھتے ہیں ۔ لیکن اس سے پہلے صلح صفائی کے لئے تمام مطلوبہ کارروائی مکمل ہونا ضروری ہے اور فریقین کو کافی مہلت ملنی چاہئے تاکہ وہ جذباتی طوفانوں اور غلبہ خواہشات کی ہنگامی کیفیات سے نکل کر اپنے اپنے موقف پر نظرثانی کرسکیں ۔ اس معاملے میں فیصلہ کرنے والے اہل علم کو جلد بازی سے کام نہیں لینا چاہئے۔ موجودہ دور کی عدالتیں جو اپنا فیصلہ نافذ کرنے کی قوت رکھتی ہیں ، وہ بھی فریقین کو مناسب مہلت دیتی ہیں ، اور جان بوجھ کرلمبی مدت کی تاریخ دیتی ہیں تاکہ فریقین میں سے ہر ایک سمجھ بوجھ والا راستہ اختیار کرسکے۔ کسی سنٹر کے انچارج کی یہ غلطی ہوگی کہ وہ خلع کا مطالبہ کرنے والی ہر عورت کے حق میں جلدی سے فیصلہ دے دے اور مقدمہ کے فریقین کو اتنی مناسب مدت مہیا نہ کرے جس سے اسے ظن غالب حاصل ہوجائے کہ اس نے اپنا فرض ادا
Flag Counter