دین و شریعت پروفیسر نوید احمد شہزاد ( تعددِ ازواج … جواز وحکمت عصر حاضر کے تقاضوں کی روشنی میں ! زیر نظر مقالہ میں تعددِ ازواج کی حکمتوں میں اگرچہ جنسی ضرورتوں کو زیادہ اُجاگر کیا گیا ہے، کیونکہ عام لوگ نکاح کو صرف ایک جنسی ضرورت ہی سمجھتے ہیں ، حالانکہ اسلام میں ’نکاح‘ خاندانی نظام کی بنیاد ہے جو مہذب معاشرہ کی بنیادی اکائی ہے۔ اگر کوئی صاحب نکاح (شادی) اور سفاح(معاشقہ) کے دیگر پہلوؤں بالخصوص سماجی پہلوؤں پر بھی قلم اُٹھائے تو آج اس کی بڑی اہمیت ہے۔مغربی معاشرے اسی فرق کو ملحوظ نہ رکھنے کی بنا پر ’سفاح‘ (جنسی بے راہ روی) کو اختیار کرکے خاندانی ادارہ کو تباہ کربیٹھے ہیں ۔ (محدث) دنیا میں اس وقت دو زبردست مگر متضاد رجحانات بے حد مقبول ہیں :ایک طرف اس عالم رنگ وبو میں ایسے عوامل اور محرکات میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے، جوکہ نفس انسانی کو جنسی طور پر ہیجان زدہ کررہے ہیں ۔ عریاں تصاویر، بلیو پرنٹس، گندی فلمیں ،تفریح کے نام پر عیاشی اور اس جیسا لٹریچر دھڑا دھڑ نوخیز نسل میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔ خاتونِ خانہ کو پردے سے نکال کر بے حجاب کردیا گیا ہے، اب بنت ِحوا عریاں رہنے کو ترقی اور جدت پسندی سمجھتی ہے۔ اس عریانی اور فحاشی کے دیگر اثرات کے علاوہ سب سے بڑا اثر (Effect)یہ ہے کہ آدم کے بیٹے نفسا نیت اورہوس پرستی کے پتلے بنتے جارہے ہیں ۔ شہوانیت کا بھوت ان کے سروں پر چڑھ کر ناچ رہا ہے۔اوران کیلئے صرف ایک ہی شریک ِحیات Life Partner تک محدود رہنا ناکافی ہو چکا ہے۔ دوسری طرف شادی کے مقدس بندھن سے تنفر بڑھتا جارہا ہے۔ اسے آزادی کے راستے میں رکاوٹ سمجھا جارہا ہے۔ اوراگر شادی ہے بھی تو صرف ایک بیوی تک محدود ہونے (Monogamy)کا رجحان ہے، ایک سے زائد بیویاں رکھنے کاتصور دنیا میں تیزی سے زوال پذیر ہے۔ انسا ئیکلوپیڈیا برٹانیکا اس رجحان کی یوں عکاسی کرتا ہے : "Industrilization, Mass education and the general prestigue of westren ways throughout the premodren world causing polygamy to wane" [1] ’’صنعتی ممالک، ذرائع معلوماتِ عامہ اور مغربی ممالک کاعمومی ٹھہراؤ اور پوری دنیا میں جدید تر رجحانات کے تحت تعددِ ازواج کا رجحان زوال پذیر ہے۔ ‘‘ وحدتِ زوج کا تصور نہ صرف ترقی یافتہ ممالک میں رواج پذیر ہے بلکہ دنیا کے دیگر بڑے مذاہب بھی بالعموم اسی تصور کے حامل ہیں ، موجودہ عیسائیت اور ہندومت کے متعلق انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا میں ہے : "Monogamy ..... as prevails in the roman catholic and Hindue prescriptions for marriafe"[2] |