تحقیق و تنقید حافظ مبشرحسین لاہوری قسط نمبر۲ توسّل واستعانت مضمونِ ہذا کی پہلی قسط محدث(جولائی ۲۰۰۲، ص۱۷تا۳۳) میں شائع ہوچکی ہے۔جس میں ’’ندائے یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! الاستعانۃ والتوسل‘‘ (از احمد رضا بریلوی، محمد عبدالحکیم شرف قادری) نامی کتابچہ کے ان دلائل پر تبصرہ کیا گیا ہے جنہیں غیر اللہ سے استعانت اور ذواتِ صالحہ سے توسل کے اثبات کے لئے پیش کیا گیا ہے۔ اس سلسلہ میں بغرضِ اختصار علماء و بزرگان کے اقوال و فرمودات سے صرفِ نظر کرتے ہوئے صرف قرآن و سنت سے پیش کردہ دلائل پر بحث کی گئی ہے۔ یاد رہے کہ اس مضمون کی پہلی قسط مولانا عبد الرحمن کیلانی نے تحریر کی تھی۔ آپ کی وفات کے بعد، یہ بحث ناقص ہونے کی وجہ سے شائع ہونے سے رہ گئی تھی، اب اس کے بقیہ دلائل کی تکمیل کی سعادت راقم الحروف حاصل کررہا ہے۔ واضح رہے کہ ائمہ سلف کے عقائد کی رو سے صرف تین طرح کا توسل مشروع ہے یعنی اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ کا توسل، اعمالِ صالحہ کا توسل اور زندہ صالح مؤمن سے دعا کروانے کا توسل۔ جبکہ ان علاوہ کسی ذات کو خواہ وہ زندہ ہو یا فوت شدہ، بطورِ ذات وسیلہ پیش کرنا ائمہ سلف جائز نہیں سمجھتے کیونکہ قرآن و حدیث اور عمل صحابہ سے اس مؤخر الذکر توسل کا کوئی جواز، ثبوت یا تائید نہیں ملتی مگر بریلوی حضرات ذواتِ صالحہ کے توسل کے قائل ہیں اور اسے ثابت کرنے کے لئے مصنف مذکور نے کچھ فرسودہ دلائل بھی پیش کئے ہیں جن کی قلعی پہلی قسط میں بھی کھولی جاچکی ہے جبکہ مذکورہ قسط میں بقیہ دلائل پر بحث کی گئی ہے۔ اسی طرح دوسرا مسئلہ یعنی ’استعانت من غیر اللہ‘ میں اہل حدیث اس بات کے قائل ہیں کہ مافوق الاسباب اُمور میں غیر اللہ سے مدد طلب کرنا ’شرک‘ ہے جبکہ ماتحت الاسباب امور میں کوئی حرج نہیں لیکن بریلوی حضرات اس کے برعکس غیر اللہ سے ہر طرح کے اُمور میں مدد طلب کرنے کو جائز سمجھتے ہیں ۔ قادری صاحب نے اس مسئلہ میں بھی بریلویوں کی ترجمانی کرتے ہوئے اس شرکیہ موقف کو عین توحید ثابت کرنے کی پوری کوشش فرمائی ہے۔ دیگر دلائل سے صرف نظر کرتے ہوئے سردست اس طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ صاحب ِرسالہ نے توسل، سفارش، دعا، تبرک ، آثار النبی صلی اللہ علیہ وسلم وغیرہ تمام چیزوں کو مشترک کرکے خلط ِمبحث کردیا ہے۔ مثلاً کسی |