Maktaba Wahhabi

38 - 68
ڈاکٹراحمد جاوید خوا جہ اور اس سے قبل ڈاکٹر عامر عزیز کے ساتھ جو کچھ ہوا، وہ ہماری جاں بہ لب آزادی و خود مختاری کا ایک پہلو ہے۔ ہمارے ہوائی اڈوں ، ہماری فضاؤں اور ہماری انٹیلی جنس انفارمیشن کا امریکی مقاصد کے تابع ہوجانا اس سیاہ بختی کا دوسرا پہلو ہے اور تیسرا پہلو یہ ہے کہ ؎ نہ کوئی حرفِ شکایت نہ احتجاج کی لے جو سر جھکا ہے تو خوں میں کوئی شرر کیسا؟ ہمارے اندر اشتعال کا اُبال تو خیر کیا اٹھتا، ا حتجاج کی کوئی چنگاری بھی نہیں سلگ رہی۔ جمہوریت کے برسرکار آنے کے بعد بھی ہماری آواز میں توانائی نہیں آرہی۔ امریکہ میں پاکستانیوں کی تذلیل اور "INS" کے تحقیر آمیز ضابطوں کی جکڑ بندی پر بھی ہم نے کچھ اس انداز سے ردِعمل دکھایا کہ کہیں کسی کھردرے لفظ سے جبیں یار پر کوئی شکن نہ آجائے۔ انسانی حقوق کا کمیشن ہمارے اس اندازِ احتجاج پر انگشت بدنداں ہے!! ہمارے لئے بے چارگی اور بے بسی کا یہ رسوا عہد اسی دن مقدر ہوگیا تھا جس دن صدر مشرف نے کولن پاول اور رچرڈ آرمیٹج کے تیار کردہ سات مطالبات، کسی بحث، کسی ترمیم کے بغیر منظور کرلئے تھے۔ بش ایٹ وار (Bush at war) کے مصنف باب وڈورڈز کے مطابق ان سات مطالبات کی تفصیل یہ ہے : 1. پاکستان اپنی سرحدوں سے جاری ’القاعدہ‘ کے آپریشنز فی الفور بند کردے۔ طالبان کو ہر قسم کے اسلحہ اور سازوسامان کی سپلائی روک دے اور اسامہ کی کسی بھی قسم کی امداد سے ہاتھ کھینچ لے۔ 2. امریکہ کو بلا روک ٹوک یہ حق دیا جائے کہ وہ پاکستان کی فضائی حدود اور زمینی رابطوں کو استعمال کرسکے۔ 3. پاکستان کے تمام بحری ہوائی اڈوں اور سرحدات کو حسب ِضرورت استعمال کا حق دیا جائے۔ 4. ہر قسم کی انٹیلی جنس نیز نقل و حرکت کے بارے میں معلومات فراہم کی جائیں ۔ 5. پاکستان بلا تاخیر گیارہ ستمبر کے حملوں کی مذمت کرے۔ داخلی طور پر دہشت گردوں سے تعاون کے تمام رستے بند کردے نیز امریکہ اور اس کے دوستوں اور اتحادیوں کے خلاف ہر قسم کی کارروائیوں کا سد ِباب کرے۔ 6. طالبان کو پٹرول اور ہر قسم کے ایندھن کی سپلائی فی الفور بند کردی جائے۔ پاکستان سے کسی بھی رضاکار یا طالبان کے حامی کوادھر جانے کی اجازت نہ دی جائے اور اسامہ بن لادن کا نیٹ ورک ختم کرنے میں ہماری مدد کی جائے۔ 7. طالبان سے سفارتی تعلقات منقطع کرلئے جائیں ۔‘‘ باب وڈ ورڈز کے مطابق کولن پاول کو حیرت انگیز مسرت ہوئی کہ صدر مشرف نے نہ صرف ساتوں مطالبات تسلیم کرلئے بلکہ بھرپور مدد کا یقین بھی دلایا۔ اس وقت وائٹ ہاؤس کے سچویشن ہال (Situation Hall) میں قومی سلامتی کونسل کا اجلاس ہورہا تھا۔ کولن پاول دوڑا دوڑا وہاں پہنچا۔ اس نے
Flag Counter