Maktaba Wahhabi

70 - 71
اس کے جواب میں دو واقعات کا حوالہ دینا چاہوں گا۔ ایک یہ کہ غزوۂ بدر کے موقع پر حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ اور ان کے والد محترم جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ہم آپ کی خدمت میں جہاد میں شمولیت کے لئے حاضر ہورہے تھے کہ راستے میں کفار کے ایک گروہ نے گرفتار کرلیا اور اس شرط پر انہوں نے ہمیں رہا کیا ہے کہ ہم ان کے خلاف جنگ میں مسلمانوں کے ساتھ مل کر حصہ نہیں لیں گے۔اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرما کر انہیں بدر کے معرکے میں شریک ہونے سے روک دیا کہ اگر تم نے اس بات کا وعدہ کرلیا ہے تو اس وعدہ کی پاسداری تم پر لازم ہے چنانچہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ اور ان کے والد ِمحترم موجود ہوتے ہوئے بھی بدر کے معرکے میں مسلمانوں کا ساتھ نہیں دے سکے تھے۔ اسی طرح حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے اس وقت اسلام قبول کیا تھا، جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قبا میں قیام فرما تھے اور ابھی مدینہ منورہ نہیں پہنچے تھے لیکن حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کا ذکر نہ بدر کے مجاہدین میں ملتا ہے اور نہ وہ اُحد ہی میں شریک ہوسکے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اس وقت آزاد نہیں تھے بلکہ ایک یہودی کے غلام تھے چنانچہ غلامی سے آزادی حاصل کرنے کے بعد ان کی شمولیت جس پہلے غزوہ میں ہوئی، وہ احزاب کا معرکہ ہے۔ ا س کا مطلب یہ ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاد کے حوالے سے مسلمانوں کے معروضی حالات اور ان کی مجبوریوں کا لحاظ رکھا ہے۔ اس لئے جو مسلمان غیر مسلم اکثریت کے ملکوں میں رہتے ہیں اور ان کے ان ریاستوں کے ساتھ وفاداری کے معاہدات موجود ہیں ، ان کے لئے ان معاہدات کی پاسداری لازمی ہے، البتہ اپنے ملکوں کے قوانین کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد ، ہمدردی اور خیر خواہی کے لئے وہ جو کچھ بھی کرسکتے ہیں ، وہ ان کی دینی ذمہ داری ہے اور اس میں انہیں کسی درجے میں بھی کوتاہی روا نہیں رکھنی چاہئے۔ گذشتہ سال (۲۰۰۱ء) افغانستان پر امریکی حملے کے موقع پر میں برطانیہ میں تھا۔ مجھ سے وہاں کے بہت سے مسلمانوں نے دریافت کیا کہ ان حالات میں ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ میں نے عرض کیا کہ آپ کویہودیوں کی پیروی کرنا چاہئے اور ان سے کام کا طریقہ سیکھنا چاہئے کیونکہ یہودی ان ممالک میں رہتے ہوئے جو کچھ یہودیت کے عالمی غلبہ اور اسرائیل کے تحفظ و دفاع کے لئے کررہے ہیں ، اسلام کے غلبہ اور مظلوم مسلمانوں کے دفاع کے لئے وہ سب کچھ کرنا مسلمانوں کا بھی حق ہے مگر یہ کام طریقہ اور ترتیب کے ساتھ ہونا چاہئے اور جن ملکوں میں مسلمان رہ رہے ہیں ، ان کے ساتھ اپنے معاہدات اور کمٹ منٹ کے دائرے میں رہتے ہوئے کرنا چاہئے۔
Flag Counter