جہاد و قتال مولانا زاہد الراشدی ’جہاد‘ کا مفہوم اور دورِ حاضر میں اسکے تقاضے اسلام میں جہاد کا تصور اور فضیلت، دیگر ادیان و مذاہب کے بالمقابل اسلام کا امتیازی تصور ہے جس کی رو سے جہاں جان و مال اور عقل و نسل کا تحفظ بنیادی حق قرار پاتا ہے، وہاں سیکولر ازم کے برعکس دین کا تحفظ بھی اسلام کی نظر میں بنیادی حقوق میں شاملہے۔ بلاشبہ جہاد کا یہ تصور اسلام کی حقانیت اور جامعیت کا بہت بڑا ثبوت ہے۔ مولانا زاہد الراشدی قلم و دانش کے ان مجاہدین میں شامل ہیں جو موقع بموقع ایسے تصورات کو اجاگر کرتے رہتے ہیں ۔ اسی سلسلے میں پنجاب یونیورسٹی (شیخ زاید اسلامک سنٹر) کے زیر اہتمام ایک سیمینار میں پڑھا جانے والا موجودہ مقالہ ہدیہٴ قارئین ہے جس کی ہم بھرپور تائید کرتے ہیں تاہم یہ وضاحت مناسب ہوگی کہ اس مقالہ میں بعض مقامات ایسے آئے ہیں جہاں جوشِ خطابت میں جہاد کی خصوصی نوعیت قتال (محاربہ) کے مقصد کے بارے میں اسلامی جہاد اور عسکریت کے درمیان التباس پیدا ہوسکتا ہے کیونکہ قتال ومحاربہ اسلام کی نظر میں بنفسہ پسندیدہ اور مرغوب چیز نہیں ہے بلکہ رسول اللہ کے فرمان : لاتتمنوا لقاء العدو واسئلوا اللَّه العافية…الحديث (بخاری) ”دشمن سے ملاقات کی آرزو نہ کرو اور اللہ سے عافیت طلب کرو…“ وغیرہ کی روشنی میں حتیٰ الوسع قتال سے بچنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ اس مفہوم کو علمائے اُصول نے حسن بنفسہ اور حسن لغیرہ کی تقسیم سے واضح کرنے کی کوشش کی ہے یعنی جس طرح حدود (رجم، قطع ید وغیرہ) فی نفسہ اسلام کا مقصود ومطلوب نہیں ہیں بلکہ معاشرے میں امن و امان کی ایک ناگزیر ضرورت ہیں یعنی حدودِ شرعیہ فی نفسہ پسندیدہ نہ ہونے کی وجہ سے حسن لغیرہ کے زمرہ میں آتی ہیں ، اسی طرح قتال و محاربہ اسلام کی نظر میں ذاتی طور پر مطلوب نہیں بلکہ دفاعِ دین کی ایک ضرورت ہونے کے ناطے حسن لغیرہ کے طور پر اہم ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے ﴿وَقَاتِلُوْهُمْ حَتّٰی لاَتَکُوْنَ فِتْنَةٌ … الاية﴾ کی روشنی میں ’قتال‘ کو اسلام کے مقصد ومنہاج کی بجائے فتنہ و فساد کے خاتمہ کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ حقیقةً شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ جیسے شخص کی یہ وضاحت اسلام کی بہت اہم تعبیر ہے۔ زیرنظر مقالہ میں اسی نکتہ نظر کی وضاحت کے لئے ہم نے کئی عبارتوں پر حواشی لگانے کی جسارت کی ہے جس سے مقصود مولانا زاہد الراشدی صاحب سے اختلاف نہیں بلکہ مذکورہ بالا موقف میں غیر شعوری طور پر پیدا ہونے والے التباس کو رفع کرنے کی کوشش کی گئی ہے کیونکہ اس وقت مغربی دنیا میں بالعموم اور اسلامی معاشرہ میں بالخصوص ایسی بحثیں جاری ہیں کہ کیا دنیا بھر میں عسکری تنظیموں کی تمام کاروائیاں بلااستثنا اسلامی ہیں یا بعض کاروائیاں اس تشدد کے زمرہ میں آتی ہیں جس کی اسلام غیر مشروط اجازت نہیں دیتا؟ مثلاً مصر کے صدر انور سادات وغیرہ کا قتل یا بعض ایسے تخریبی کام جنہیں کسی صورت بھی اسلام کا جبہ نہیں پہنایا جاسکتا۔ مولانا زاہد الراشدی جیسے حضرات سے ہم امید رکھتے ہیں کہ وہ عسکری تنظیموں کی بلا استثنا تمام کاروائیوں کی تائید کی بجائے دنیا کے کئی مسلم معاشروں میں ان کے بعض انتہا پسندانہ پہلوبھی پیش نظر رکھیں گے جس طرح موصوف نے حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ اور ان کے والد کی جنگ ِبدر میں عدمِ شمولیت اور حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کاجنگ ِاحزاب سے پہلے کے غزوات سے غیر حاضر |