ہونے کا عذر اپنے مضمونِ ہذا میں پیش کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے زبان و قلم میں مزید زور اور قوتِ تاثیر پیدا فرمائے۔ آمین ! (محدث) میرے پیش نظر موضوع ’سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں جہاد کا مفہوم‘ ہے جس کے مختلف پہلوؤں کا احاطہ حتیٰ کہ تذکرہ بھی اس مختصر وقت میں ممکن نہیں ہے۔ اس لئے بہت سے اُمور کو نظر انداز کرتے ہوئے چند ایک ایسے سوالات کا جائزہ لینا چاہوں گا جو جہاد کے حوالے سے آج کے دور میں عالمی سطح پر موضوعِ بحث ہیں اور ان کے بارے میں مثبت اور منفی طور پر بہت کچھ لکھا اور کہا جارہا ہے : ’جہاد‘ کا لفظ لغوی طور پر (مقابلہ میں ) کوشش، محنت و مشقت اور تگ و دو کی مختلف شکلوں کا احاطہ کرتا ہے اور اسے دینی پس منظر میں لیا جائے تو اسلام کی سربلندی، دعوت و تبلیغ، ترویج و تنفیذ اور تحفظ ودفاع کے لئے کی جانے والی مختلف النوع عملی کوششوں کے ساتھ ساتھ ایک مسلمان کی حیثیت سے اپنی خواہشات پر کنٹرول اور نفس کی اصلاح کی مساعی پر بھی جہاد کا لفظ بولا گیا ہے جس کی قرآن و سنت میں بہت سی مثالیں ملتی ہیں ۔ لیکن جہاد کا ایک خصو صی مفہوم ’جنگ‘ اور ’محاربہ‘ بھی ہے جسے قرآنِ کریم میں ’جہاد فی سبیل اللہ‘ اور ’قتال ‘ کے عنوان سے تعبیر کیا گیا ہے[1] چنانچہ سینکڑوں آیاتِ قرآنی اور ہزاروں احادیث ِنبویہ میں اس کا تذکرہ موجود ہے اور اس ’جہاد‘ کے فضائل، احکام، مسائل اور مقصدیت پر قرآن و سنت میں پورے اہتمام کے ساتھ جابجا روشنی ڈالی گئی ہے۔ یہ ہے اللہ کے دین کی سربلندی کے لئے کافروں کے خلاف میدانِ جنگ میں صف آرا ہوکر ہتھیاروں کے ساتھ ان سے معرکہ آرائی کرنا اور قتل و قتال کے ذریعے سے کفر پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کرنا جس کی اہمیت و فضیلت پر قرآنِ کریم اور سنت ِنبوی کی سینکڑوں تصریحات گواہ ہیں اور اس کو آج کے دور میں اس وجہ سے سب سے زیادہ تنقید و اعتراض کانشانہ بنایا جارہا ہے کہ |