جدید عقل و دانش کے نزدیک عقیدہ ومذہب کے فروغ اور غلبہ کے لئے ہتھیار اُٹھانا تہذیب و تمدن کے تقاضوں کے خلاف ہے اور ایسا کرنا بنیاد پرستی، انتہا پسندی اور دہشت گردی کے دائرے میں آتا ہے۔[1] جہاد ہر دور میں تھا اور ہمیشہ جاری رہے گا اس سلسلے میں آگے بڑھنے سے قبل ایک بات کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ عقیدہ و مذہب کے لئے ہتھیار اٹھانے اور باطل مذاہب پر حق مذہب کی بالادستی کے لئے عسکری جنگ لڑنے کا آغاز حضرت محمد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا بلکہ جہاد کا یہ عمل آسمانی ادیان میں پہلے سے تسلسل کے ساتھ چلا آرہا ہے اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حوالے سے تاریخ میں کسی نئے عمل اور اُسلوب کا اضافہ کرنے کی بجائے آسمانی مذاہب کی ایک مسلسل روایت کو برقرار رکھا ہے چنانچہ جس طرح قرآنِ کریم میں جہاد اور مجاہدین کا تذکرہ پایا جاتا ہے، اسی طرح بائبل میں بھی ان مجاہدین اور مذہبی جنگوں کا ذکر موجود ہے جو بنی اسرائیل نے اپنے مذہب کے دفاع اور اپنی آزادی اور تشخص کے تحفظ کے لئے لڑیں ۔ مثال کے طور پر قرآنِ کریم نے فلسطین کی سرزمین پر لڑی جانے والی ایک مقدس جنگ کا سورة البقرة میں تذکرہ کیا ہے جو جالوت جیسے ظالم حکمران کے خلاف طالوت کی قیادت میں لڑی گئی اور اس میں حضرت داؤد علیہ السلام کے ہاتھوں جالوت بادشاہ کا معجزانہ طور پر خاتمہ ہوا۔ اس جنگ کا تذکرہ بائبل میں بھی موجود ہے اور اس میں حضرت طالوت کو ’ساؤل‘ بادشاہ کے نام سے ذکر کیا گیا ہے۔ اس لئے اگر آج کی جدید دانش کو مذہب کے نام پر ہتھیار اٹھانے پر اعتراض ہے تو اس کا ہدف |