Maktaba Wahhabi

63 - 71
صرف قرآنِ کریم اور جنابِ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی نہیں بلکہ اصولی طور پر بائبل اور بنی اسرائیل یعنی یہود و نصاریٰ کی پوری تاریخ اس کی زد میں ہے ، صرف اتنے فرق کے ساتھ کہ بائبل کے ماننے والوں نے بائبل پرایمان کے باوجود اس کے عملی احکام اور ماضی سے دستبرداری کا اعلان کردیا ہے جبکہ قرآنِ کریم پر ایمان رکھنے والے تمام تر عملی کمزوریوں کے باوجود اپنے ماضی اور قرآنی احکام و تعلیمات سے دستبردار ہونے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ اس وضاحت کے بعد جہاد کی مقصدیت کے حوالے سے یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ جہا دکا مقصد جنابِ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ’اعلاء کلمة اللہ‘ قرار دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلمہ بلند ہو جس کا مطلب عملی طور پر یہ ہے کہ انسانی سوسائٹی میں حکم اور قانون کا درجہ انسانی خواہشات اور ظن و گمان کو نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے احکام اور آسمانی تعلیمات کو حاصل ہونا چاہئے اور کلمة اللہ کی اسی سربلندی کے لئے قرآن کریم اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آسمانی مذاہب کی ان دینی معرکہ آرائیوں کے تسلسل کو باقی رکھا ہے تاکہ کسی دور میں بھی انسانی خواہشات اور عقل و گمان کو وحی الٰہی اور آسمانی تعلیمات پر غلبہ حاصل نہ ہونے پائے اور انسانی سوسائٹی پراللہ تعالیٰ کے احکام کی عملداری کے جس مشن کے لئے حضرات انبیاءِ کرام مبعوث ہوتے رہے ہیں ، اس میں تعطل واقع نہ ہو چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ارشادِ مبارک میں یہ کہہ کر اس جدوجہد کے قیامت تک جاری رہنے کا اعلان فرما دیا ہے کہ : ”الجهاد ماض الی يوم القيامة[1] جنگ وجدل کے لئے دورِ حاضر کی خوشنما توجیہات یہ فکر و فلسفہ کی جنگ ہے، اسلوب زندگی کی معرکہ آرائی ہے اور تہذیب و ثقافت کا محاذ ہے جس میں شروع سے آسمانی مذاہب کا یہ موقف رہا ہے اور اب آسمانی مذاہب و ادیان کے حقیقی وارث کی حیثیت سے اسلام کا موقف بھی یہی ہے کہ انسانی سوسائٹی کی راہنمائی اور اس کے مسائل کے حل کے لئے انسانی خواہشات اور عقل و دانش تنہا کفایت نہیں کرتیں بلکہ ان پر آسمانی تعلیمات کی نگرانی ضروری ہے کیونکہ اس ’چیک اینڈ بیلنس‘ (Check & Balance) کے بغیر انسانی خواہشات اور انسانی عقل کے لئے پوری نسل انسانی کی ضروریات و مفادات میں توازن قائم رکھنا ممکن نہیں ہے لیکن آج کا سب سے بڑا المیہ یہ
Flag Counter