ہے کہ تہذیب ِجدید نے آسمانی تعلیمات سے دستبرداری کا اعلان کرکے خواہشات اور عقل ہی کو تمام اُمور کی فائنل اتھارٹی قرار دے رکھا ہے جس سے توازن بگڑ گیا ہے، اجتماعی اخلاقیات دم توڑ گئی ہیں ، طاقت کا بے لگام گھوڑا وحی الٰہی کی لگام سے آزاد ہوگیا ہے اور پوری دنیا میں ہر طرف ’جنگل کے قانون‘ (Might is Right) کا دور دورہ ہے۔ آج کی جدید دانش نے چونکہ مذاہب کو اجتماعی زندگی سے بے دخل کرکے شخصی زندگی کے دائروں میں محدود کردیا ہے، اس لئے عقل جدید کے نزدیک مذہب کو وہ مقام حاصل نہیں رہا کہ اس کے لئے ہتھیار اٹھائے جائیں اور اس کے فروغ و تنفیذ کے لئے عسکری قوت کو استعمال میں لایا جائے، ورنہ ہتھیار تو آج بھی موجود ہیں اور جتنے ہتھیار آج پائے جاتے اور تیار ہورہے ہیں ، انسانی تاریخ میں اس سے قبل کبھی نہیں دیکھے گئے۔ یہ ہتھیار استعمال بھی ہوتے ہیں اور وہ ایسی تباہی لاتے ہیں کہ اس سے قبل انسانی تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے مگر ان ہتھیاروں کو استعمال کرنے والوں کے مقاصد اور عنوانات مختلف ہیں : …٭ جرمنی نے ’جرمن نسل کی برتری‘ کے عنوان سے ہتھیار بنائے اور دو عظیم جنگوں میں پوری دنیا کے لئے تباہی کا سامان فراہم کیا۔ …٭ روس نے ’محنت کشوں کی طبقاتی بالا دستی‘ کے نام پر عسکری قوت کا بے تحاشا استعمال کیا اور نسل انسانی کے ایک بڑے حصے کو تہہ تیغ کردیا۔ …٭ اسرائیل ایک ’نسلی مذہب کی برتری‘ کے لئے اپنے سائز سے سینکڑوں گنا زیادہ ہتھیار جمع کئے ہوئے ہے اور فلسطینیوں کی مسلسل نسل کشی (Genocide) میں مصروف ہے۔ …٭ اور امریکہ نے ’مغرب کی تہذیب و ثقافت کے تحفظ‘ کے نام پر افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر نسلی برتری ، طبقاتی بالادستی اور تہذیب و ثقافت کے تحفظ کے لئے ہتھیار اٹھانا اور صرف اُٹھانا نہیں بلکہ اسے وحشیانہ اندا زمیں اندھا دھند استعمال کرکے لاکھوں بے گناہ انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دینا دہشت گردی نہیں ہے تو ’آسمانی تعلیمات کے فروغ اور وحی الٰہی کی بالادستی‘ کے لئے ہتھیار اٹھانے کو کون سے قانون اور ا خلاقیات کے تحت دہشت گردی قرار دیا جارہا ہے؟ تبصرہ: باقی تمام پہلوؤں سے صرفِ نظر کرتے ہوئے آج کی معروضی صورت حال (Scenario) میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے طرزِعمل کا جائزہ لے لیں کہ افغانستان اور دنیا بھر |