کے مختلف علاقوں میں اسلام کے اجتماعی نظام کے نفاذ کا نام لینے والوں کے خلاف ’عالمی اتحاد‘ کے پرچم تلے جو وحشیانہ فوج کشی جاری ہے، اس کے جواز میں اس کے علاوہ اب تک کوئی دلیل پیش نہیں کی جاسکتی کہ اسلام کا نام لینے والے ان مبینہ انتہا پسندوں سے آج کی عالمی تہذیب کو خطرہ ہے۔ بالادست (Dominant) ثقافت کو خطرہ ہے اور بین الاقوامی نظام کو خطرہ ہے، اس لئے ان انتہا پسندوں کا خاتمہ ضروری ہے اور ستم ظریفی کی انتہا یہ ہے کہ عقیدہ و مذہب کے لئے ہتھیار اٹھانے کو ’دہشت گردی‘ کہنے والے خود ایک مذہب اور عقیدہ کے خلاف ہتھیار اٹھائے ہوئے میدانِ جنگ میں مسلسل صف آرا ہیں ۔ میری اس گزارش کا مقصد یہ ہے کہ اگر ایک عقیدہ، فلسفہ اور تہذیب کے تحفظ کے لئے ہتھیار اٹھانے اور اسے بے دریغ استعمال کرنے کا ایک فریق کو حق حاصل ہے تو اس کے خلاف دوسرے عقیدہ، فلسفہ اور تہذیب کے علمبرداروں کو ہتھیار اٹھانے کے حق سے کس طرح محروم نہیں کیا جاسکتا…! اور ہتھیار بنانے اور استعمال کرنے کے لئے یہ کوئی وجہ جواز (Excuse) نہیں ہے کہ چونکہ ایک فریق کے پاس ہتھیار بنانے کی صلاحیت زیادہ ہے اور اسے ان ہتھیاروں کے استعمال کے مواقع زیادہ میسر ہیں ، اس لئے اسے تو ہتھیار بنانے اور چلانے کا حق حاصل ہے اور دوسرا فریق اس صلاحیت میں کمزور اور ان مواقع کی فراوانی سے محروم ہے اس لئے اسے اس کا سرے سے کوئی حق نہیں ہے !! آج امریکہ اور اس کے اتحادی ا س بات پر مطمئن ہیں کہ جو جنگ وہ لڑ رہے ہیں ، وہ اعلیٰ مقاصد کی خاطر لڑی جارہی ہے، ا نسانیت کی بھلائی کی جنگ ہے اور ان کے بقول اعلیٰ ترین تہذیبی اقدار کے تحفظ کی جنگ ہے۔جنگ کی اسی مقصدیت کی وجہ سے انہیں اس عظیم جانی و مالی نقصان کی کوئی پروا نہیں ہے جو دنیا بھر میں ان کے ہاتھوں مسلسل جاری ہے۔ انسان مر رہے ہیں ، عورتیں بیوہ ہورہی ہیں ، بچے یتیم ہورہے ہیں ، عمارتیں کھنڈرات میں تبدیل ہورہی ہیں ، ملکوں اور قوموں کی معیشتیں تباہ ہورہی ہیں اور امن و امان کا توازن مسلسل بگڑتا چلا جارہا ہے لیکن ایسا کرنے والے چونکہ اپنے زعم کے مطابق یہ سب کچھ اعلیٰ مقاصد کے لئے کررہے ہیں اور ان اقدامات کے ذریعے سے اعلیٰ تہذیب و ثقافت کا تحفظ کررہے ہیں ، اس لئے ان کے خیال میں یہ سب کچھ جائز ہے اور جنگ کا حصہ ہے جسے کسی چون و چرا کے بغیر پوری نسل انسانی کو برداشت کرنا چاہئے۔ یہی بات اسلام کہتا ہے اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ نسل انسانی کے لئے نجات کا راستہ انسانی خواہشات اور صرف انسانی عقل نہیں ہے بلکہ وحی الٰہی کی نگرانی اور آسمانی تعلیمات کی برتری انسانی سوسائٹی کے لئے ضروری ہے اور اسلام کے نزدیک انسانیت کی اعلیٰ اقدار اور تہذیبی روایات کا سرچشمہ انسانی خواہشات اور عقل محض نہیں بلکہ وحی الٰہی اور آسمانی تعلیمات ہیں ، اس لئے ایک مسلمان اگر ان |