آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرز کی تقلید کی۔اسی طرح تابعی معاویہ بن قرة نے بھی ایسا کرنے کا ارادہ کیا۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ قراتِ قرآن میں نقل اتارنا جائز ہے۔ ۲۔ دوسری دلیل حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی صحیح حدیث ہے جس میں قرآن کو پرُدرد اور پرُسوز آواز سے پڑھنے کی ترغیب ہے۔ (دیکھئے اس مقالہ کا صفحہ ۳ اور۸) واقعہ یہ ہے کہ نبی جب کسی فضیلت پر اُبھارتے تو سب سے پہلے خود اس پرعمل کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ نبی جب ترنم اور خوش الحانی سے قرآن پڑھتے تو خود بھی روتے اور دوسروں کو بھی رُلاتے۔ اسی طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ کی نقل کرتے اور اسی لحن (طرز) پر قرآن پڑھتے تھے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آواز کا پرسوز اور پردرد ہونا بھی ایک لحن ہے۔ اس کی دلیل حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا وہ اثر ہے جس کا ذکر ہم پہلے بھی کرچکے ہیں کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے ایک سورة کی تلاوت کی اور اس قدر غمزدہ ہوئے گویا کسی عزیز کی موت کی خبر سن لی ہو ۔ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فتح الباری (۹/۷۰) میں فرماتے ہیں کہ ابوداؤد نے اس حدیث کو سند حسن سے روایت کیا ہے۔ کیا یہ تمام دلائل قاریٴ قرآن کو یہ جواز مہیا نہیں کرتے کہ وہ خوش الحانی میں نبی کی نقل اتارے؟ کیا اس دلیل کے بعد کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کے لحن کی نقل کرتے تھے، کسی مزید دلیل کی گنجائش باقی رہ جاتی ہے ؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جو نبی کی ہرہر ادا پرعمل کرنے کے بہت شائق تھے، کیا وہ آپ کے لحن کی اقتدا میں حریص نہیں ہوں گے؟ جب ایک شاگرد اپنے استاد کی آواز، اس کے لحن اور ادائیگی حروف میں نقل کرسکتا ہے تو کیا ہم اس بارے میں معلم اوّل امام العالمین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا اور نقل نہ کریں ۔ واللَّہ اعلم |