Maktaba Wahhabi

68 - 71
اب وہ زبان کی جنگ لڑیں گے اور مسلمانوں کے خلاف پورے عرب میں پراپیگنڈے اور منافرت انگیزی کا بازار گرم کریں گے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر شعر و خطابت سے تعلق رکھنے والے صحابہ کر ام رضی اللہ عنہم کو میدان میں آنے کی ترغیب دی، چنانچہ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ ، حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ اور حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے کھلے بندوں اعلان کرکے یہ محاذ سنبھالا اور شعر و شاعری کے محاذ پر کفار کے حملوں کا پوری جرأت کے ساتھ مقابلہ کیا۔ زیادہ تفصیلات کا موقع نہیں ہے لیکن ان گزارشات سے اتنی بات ضرور سامنے آگئی ہوگی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی سربلندی اور اُمت ِمسلمہ کے تحفظ و استحکام کے لئے موقع و محل کی مناسبت سے جنگ کی ہرممکنہ صورت ا ختیار کی اور محاذ آرائی کے جس اسلوب نے بھی جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنا چیلنج رکھا، اسے جواب میں مایوسی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ چھاپہ مار کاروائیاں آج کے حالات میں جہاد کے حوالے سے دو سوال عام طور پر کئے جاتے ہیں : ایک یہ کہ دنیا کے مختلف حصوں میں مسلمان مجاہدین کی چھاپہ مار کاروائیوں کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ اور کیا کسی علاقے میں جہاد کے لئے ایک اسلامی حکومت کا وجود اور ا س کی اجازت ضروری نہیں ہے؟ اس کے جواب میں عرض کرتا ہوں کہ اس سلسلے میں حضرت ابوبصیر رضی اللہ عنہ کا کیمپ اور حضرت فیروز دیلمی رضی اللہ عنہ کی چھاپہ مار کاروائی ہمارے سامنے واضح مثال کے طور پر موجود ہے۔ حضرت ابو بصیر رضی اللہ عنہ نے اپنا کیمپ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت سے قائم نہیں کیا تھا لیکن جب یہ کیمپ اپنے مقاصد میں کامیاب ہوا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف ا س کے نتائج کو قبول کیا بلکہ قریش کی طرف سے یک طرفہ شرائط سے دست برداری کے بعد اس کیمپ کے مجاہدین کو باعزت طور پر واپس بلا لیا۔[1] اسی طرح یمن پر اسود عنسی کا غیر اسلامی اقتدار قائم ہونے کے بعد جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ سے فوج بھیج کر لشکر کشی نہیں کی بلکہ یمن کے اندر مسلمانوں کو بغاوت کرنے کا حکم دیا اور اسی بغاوت کی عملی شکل وہ چھاپہ مار کاروائی تھی جس کے نتیجے میں اسود عنسی قتل ہوا۔
Flag Counter