خیال ہے؟ تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے پوچھا: کیا نام ہے تمہارا ؟ کہا :محمد۔جس پرامام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:کیا تو پسند کرتا ہے کہ تجھے کوئی ’موحمد‘ کہے؟“ اسی طرح ابوبکرمروزی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے عبدالرحمن المتطبّب کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں نے امام ابو عبداللہ احمد رحمۃ اللہ علیہ سے قرآن کو الحان کے ساتھ پڑھنے کے متعلق سوال کیا توانہوں نے فرمایا: ”اے ابوالفضل! ان لوگوں نے قرآن کو نغمہ اور گیت بنا لیا ہے، ان سے قرآن نہ سنو۔“ (الأمربالمعروف للخلال: ص ۱۷۷،۱۷۹) اسی طرح وہ روایت کہ ایک آدمی مسجد ِنبوی میں قرآن کو راگ اور سر لگا کر پڑھ رہا تھا تو قاسم بن محمد رحمۃ اللہ علیہ نے اسے دیکھ کر قرآن کی یہ آیت پڑھی: ﴿لاَ يَاْتِيْهِ الْبَاطِلُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَلاَ مِنْ خَلْفِهِ تَنْزِيْلٌ مِّنْ حَکِيْمٍ حَمِيْدٍ﴾(فصلت:۴۲) تو یہاں قاسم بن محمد رحمۃ اللہ علیہ کے اعتراض کو ایسے شخص پر محمول کیا جائے گا جو قرآن کو فاسق و فاجر گلوکاروں کی طرح پڑھتا ہے۔ (الخبرعندالخلال:ص۱۷۶) کیونکہ قاسم بن محمد نے جس آیت سے اشتہاد کیا ہے، اس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ شخص فاسق وفاجر گلوکاروں کی طرز پر پڑھ رہا تھا۔ لیکن اگر کوئی شخص قوانین نغمہ کے ساتھ ایسی قراء ت کرتا ہے کہ اس کی آواز میں سوز و درد ہو ، خوفِ خدا اس سے جھلکتا ہو اور دل اس کے ساتھ حرکت میں آجائیں تو بتائیے، کیا کوئی اسکوناجائز قرار دے گا؟ احمد الخلال کہتے ہیں کہ مجھے ابوبکر مروزی رحمۃ اللہ علیہ نے بتایا کہ ہم ایک لشکر کے ساتھ محاذ جنگ سے واپس آرہے تھے۔ رستے میں ، میں نے ابوعبداللہ (امام احمد رحمۃ اللہ علیہ ) کو ایک آدمی سے یہ کہتے ہوئے سنا کہ ”کاش تم مجھے قرآن پڑھ کر سناتے۔ جب اس نے پڑھنا شروع کیا تو میں نے دیکھا کہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کی آنکھیں بار بار آنسوؤں سے ڈبڈبا جاتی تھیں۔“ (الخبرعندالخلال:ص۱۷۸) احمد الخلال رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے ابوبکر مروزی رحمۃ اللہ علیہ کو دیکھا کہ جب کسی ایسے شخص کو دیکھتے جس کی قرات پر سوز اور غمناک ہوتی تو اس سے قرآن پڑھنے کی خواہش کرتے اور اکثر کہتے کہ﴿ إنَّ الاَوَّلِيْنَ وَالآخِرِيْنَ لَمَجْمُوْعُوْنَ لِمِيْقَاتِ يَوْمٍ مَّعْلُوْمٍ﴾(الواقعہ: ۴۹،۵۰)سے پڑھو۔(ایضاً) یہ امر واضح ہے کہ قراء ت میں سوز کاہونا بھی تو الحان اور آواز کی ایک طرز ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر سلف کا اس مسئلہ میں سختی اختیار کرنے سے اصل مقصود مطلق لحن اور ترنم سے روکنا نہیں بلکہ اس بلاوجہ کے تکلف سے روکنا ہے،جس کی وجہ سے قراء ت اپنی جائز حدود سے تجاوز کرجاتی ہے۔اور جب ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ قرآن کو خوش آوازی اور ترنم سے پڑھنے سے آواز میں دانستہ یا نادانستہ موسیقی کے معروف قواعد میں سے کوئی نہ کوئی قاعدہ ضرور پایا جائے گا، تو یہ بھی ماننا پڑے گاکہ کوئی بھی آواز الحان سے خالی نہیں ہوسکتی۔جب کوئی ماہر قاری دانستہ قواعد ِموسیقی کے تحت تلاوت کرے گا تو |