میں قوانین نغمہ کا اہتمام کیا جائے، یقینا جس سے آواز کا حسن دوبالا ہوجائے گا اور اگر انسان قوانین نغمہ سے قطع نظر ہوجائے تو یقینی بات ہے کہ اس سے آواز کا حسن متاثر ہوگا۔ بسا اوقات قوانین نغمہ کو پیش نگاہ رکھنے سے بدصورت آواز بھی خوبصورتی کا لبادہ اوڑھ لیتی ہے لیکن اس کے لئے شرط یہ ہے کہ قوانین نغمہ (قواعد ِموسیقی)کے ساتھ ساتھ تجوید و قراء ت کے ان قواعد و احکام کی پوری طرح پابندی ہونی چاہئے جو اہل فن کے ہاں مسلمہ ہیں ۔حروف کی صحت ِادا سے بے نیاز ہوکر محض الحان اور آواز میں مدوجزر پیدا کرنے کے درپے ہوجانے سے آواز کا حسن مکمل نہیں ہوسکتا۔ شاید جو لوگ قوانین نغمہ کے تحت قراء ت کو مکروہ خیال کرتے ہیں ، اس کی یہی بنیاد ہو ، کیونکہ اکثر یہ ہوتا ہے کہ جو شخص قوانین نغمہ کے اہتمام کو ہی اپنا مقصود بنالے وہ حروف کی صحت ِادا سے غافل ہو جاتا ہے۔البتہ اگر کوئی شخص الحان کے ساتھ ساتھ قواعد ِتجوید اور حروف کی صحت ِادا کی بھی پابندی کرتا ہے تو یہ شخص زیادہ قابل ستائش ہے کیونکہ یہ شخص آواز میں حسن پیدا کرنے کا جو حکم دیا گیا، اس پر بھی عمل پیرا ہے اور قواعد ِتجوید کی خلاف ورزی کا بھی مرتکب نہیں ہو رہا۔“ (فتح الباری:۹/۷۲) اب رہا یہ مسئلہ کہ جو اسلاف قرآت میں ’الحان‘ کو نا پسند سمجھتے ہیں ، اس کی کیا توجیہ پیش کی جائے گی تو اس کے بارے میں ابو مجاہد رحمۃ اللہ علیہ (موٴلف) فرماتے ہیں کہ ”سلف صالحین مثلاً انس بن مالک رضی اللہ عنہ ، سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ اور ان کے معاصر علماء اسی طرح امام مالک رحمۃ اللہ علیہ ، امام احمد رحمۃ اللہ علیہ وغیر جو الحان کے ساتھ قراء ت کو مکروہ خیال کرتے ہیں ، ان کے اس قول کو اس صورت پر محمول کیا جائے گا جس میں قواعد ِتجوید اور حروف کی صحت ِادا (مخارج اور صفاتِ حروف: اظہار، ادغام ، ترقیق، تفخیم، مد اور قصر وغیرہ) کی پابندی نہ کی گئی ہو، جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کے حوالہ سے ذکر ہو چکا ہے ۔ یاپھراس صورت پر جس میں راگنی ہو جو کہ قرآن کے مقام ومرتبہ اور اس کے وقار کے منافی ہے۔اس کی وضاحت بھی ہم کرآئے ہیں ۔ یا وہ صورت جس میں ان لوگوں کے ساتھ مشابہت ہو جن کا ذکر حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں گزر چکا ہے۔ وگرنہ مطلق الحان کے ساتھ قراء ت کرنا ان کے نزدیک منع (نہیں ہے ۔“ اس کی دلیل وہ اختلاف ہے جو امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سے منقول ہے جوکہ الحان کے سخت مخالف ہیں اور ان کا اختلاف بھی امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ سے ہے جواس کے جواز کے سلسلے میں کافی وسیع النظر ہیں ، تودراصل یہ اختلاف دو حالتوں کا اختلاف ہے، دو اقوال کا اختلا ف نہیں ،جیسا کہ امام نووی نے ذکر کیا ہے۔اور پھر اس کی وضاحت زیر نظر روایات سے بھی ہوتی ہے کہ امام احمد اس صورت میں الحان کے ساتھ قرآت کو ناپسند کرتے ہیں جب اس میں قواعد ِتجوید کا خیال نہ رکھا جائے ۔ چنانچہ احمد الخلال سے روایت ہے کہ : ”ایک آدمی نے اما م احمد رحمۃ اللہ علیہ سے سوال کیا کہ قرآن کو الحان کے ساتھ پڑھنے کے متعلق آپ کا کیا |