والے قراء، جو تکلف اور تصنع میں غایتدرجہ مبالغہ کرتے ہیں کہ گردن کی رگیں پھول جاتی ہیں ، آنکھیں باہر کو آجاتی ہیں ۔ ان کا مقصد محض تسکین خواہشات، شہرت کا حصول اور مال کمانا ہوتاہے اور وہ لو گ جنہیں ان کی یہ حالت اچھی لگتی ہے، وہ صرف ان کی آواز سنتے ہیں اور ان کی چیخ و پکار کی داد تو دیتے ہیں لیکن قرآن کی آیات میں سے کچھ بھی نہیں سمجھتے۔ امام قرطبی، قاسم بن محمد رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کرتے ہیں کہ امام مالک رضی اللہ عنہ سے سوال کیا گیا کہ نماز میں لب و لہجہ (قواعد ِموسیقی کی رو رعایت) سے قراء ت کرناکیسا ہے؟ تو فرمایا: ”میں اسے اچھا نہیں سمجھتا، یہ تو گانا ہے۔ لوگ اس لئے گاتے ہیں تاکہ اس کے ذریعے مال حاصل کریں ۔“ (مقدمہ تفسیرقرطبی:۱/۱۰) یہ قول جو ہم نے اختیار کیا ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ یہی درست ہے۔ یہ افراط و تفریط کے دو راستوں کے درمیان ایک معتدل راستہ ہے۔ نہ تو انتہائی سختی کرتے ہوئے کلی طور پر اس دروازہ کو بند کرنے کا فتویٰ دینا درست ہے اور نہ ہی اس قدر آگے نکل جانا درست کہ بالکل قواعد ِتجوید سے ہی بے نیاز ہو جائے۔ ( مذکورہ رائے ہماری خود ساختہ نہیں بلکہ سلف میں سے اہل علم کی ایک جماعت نے اسی قول کو اختیار کیا ہے جیسا کہ ہم پہلے یہ ذکر کرچکے ہیں کہ حنفیہ، شافعیہ اور حنابلہ میں سے بعض فقہا نہ صرف اس کے جواز کے قائل ہیں بلکہ وہ اس کو مستحب کہتے ہیں ۔امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسی قول کو اختیار کیا ہے۔ اسی طرح حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے تغنی کے متعلق تفصیلی بحث کی ہے اور پھر مختلف طرزوں پر قراء ت کرنے کے بارے میں فقہاء کے مذاہب کا خلاصہ پیش کرنے کے بعد راجح قول کی وضاحت ان الفاظ میں کی ہے : ”دلائل کے تناظرمیں جو بات سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ یہاں تغنی سے مطلوب قرآن کو خوبصورت آواز کے ساتھ پڑھناہے۔اگر کوئی آدمی طبعی طور پر خوش آواز نہیں ہے تو وہ جس قدر ہوسکے، آواز میں حسن پیدا کرنے کی کوشش کرے۔ اس کی دلیل ابن ابی ملیکہ رحمۃ اللہ علیہ کا قول پہلے گزر چکا ہے، جسے ابوداود رحمۃ اللہ علیہ نے بسند ِصحیح نقل کیا ہے۔آواز کی ساری خوبصورتی کا دارومدار اسی پر ہے کہ اس |