اسلئے بعض سلف مثلاً امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور لیث رحمۃ اللہ علیہ بن سعدنے قرآن کو تغنی کے ساتھ پڑھنے والی حدیث کی یہی تفسیر کی ہے کہ قرآن کو پڑھتے ہوئے دل پر غم اور رقت طاری ہوجائے۔ (فتح الباری: ۹/۷۰) اس کی دلیل حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”جب قرآن پڑھو تو روؤ ، اگر رو نہ سکو تو رونے کی سی شکل بنا لو اور اس کو ترنم اور خوش الحانی سے پڑھو۔ جو شخص قرآن کو خوش الحانی سے نہیں پڑھتا وہ ہمارے طریقہ پر نہیں ہے۔“ (ابوداود: ۲/۷۴، دارمی: ۲/۳۳۸، احمد: ۱/ ۵ ۷ ۱ ، حاکم: ۱/۵۶۹) یہ حدیث مختلف طرق سے مروی ہے لیکن کوئی بھی طریق ضعف سے محفوظ نہیں ہے۔ لیکن کثرتِ طرق کی وجہ سے اسے تقویت حاصل ہوجائے گی۔ عبداللہ بن بریدہ رضی اللہ عنہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قرآن کریم کو سوز اور رِقت ِقلبی کے ساتھ پڑھوکیونکہ قرآن انتہائی رقت آمیز کتاب ہے۔“ (طبرانی فی الاوسط ، مجمع الزوائد ۷/۱۶۹، ابونعیم فی الحلیہ ۶/۱۹۶، اخلاق حملة القرآن : ص۷۸) ( عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک سب سے بہترین قراء ت اس شخص کی ہے جو قرآن پڑھے اور اس کی آنکھوں سے غم جھلکتا ہو اور دل پر رِقت طاری ہو۔“ (طبرانی، مجمع الزوائد:۷/۱۷۰، فضائل القرآن از ابن کثیر:ص۵۵) ( حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے متعلق مروی ہے کہ انہوں نے ایک سورة کی تلاوت فرمائی اورپھر اس قدر رنجیدہ ہوئے جس طرح کوئی شخص کسی کی موت کے غم میں رنجیدہ ہوتا ہے۔(فتح الباری: ۹/۷۰) حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فتح الباری میں فرماتے ہیں کہ ابوداؤد رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو بسند حسن روایت کیا ہے۔ لیکن یہاں یہ دھیان رہے کہ کہیں وہ نوحہ اور ماتم کرنے والوں کے لب و لہجہ میں و اقع نہ ہوجائے جس سے منع کیا گیاہے۔ یہ ایسا مرحلہ ہے کہ ایک پختہ کار اور ماہر قاری ہی اس پر قابو رکھ سکتا ہے۔ (۴) قاری قرآن کے لئے چوتھی شرط یہ ہے کہ وہ آواز کو خوبصورت بنانے اور ترنم میں حسن پیدا کرنے یا فطری خوش آوازی میں مزید حسن پیدا کرنے کے لئے الحان کو بقدرِ ضرورت اختیار کرسکتا ہے۔جیسا کہ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے کہا تھا :” اگر مجھے معلوم ہوتا کہ نبی میری قراء ت سن رہے ہیں تو میں اپنی آواز کومزید خوبصورت بناتا۔“ لیکن یہ خیال رہے کہ خواہ مخواہ تکلف اور تصنع کے ذریعے جائز حدود سے تجاوز نہ کرجائے۔ ایسا عموماً وہ لوگ کرتے ہیں جو اس کام کو بطورِ پیشہ اختیار کرلیتے ہیں اور قرآن کو کمائی، کھانے پینے اور شہرت کا ذریعہ بنالیتے ہیں ۔ خصوصاً ریڈیو اور مجالس عزا میں قراءت کے جوہر دکھانے |