ہوجاتا اور اس قسم کی مثالیں ہم لوگوں کے لئے اس لئے بیان کرتے ہیں تاکہ وہ غوروفکر کریں ۔“ ایک اور مقام پر فرمایا: ﴿اَللّٰهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيْثِ کِتٰبًا مُّتَشَابِهًا مَّثَانِیَ تَقْشَعِرُّ مِنْه جُلُوْدُ الَّذِيْنَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ثُمَّ تَلِيْنُ جُلُوْدُهُمْ وَقُلُوْبُهُمْ إلٰی ذِکْرِ اللّٰهِ﴾ (الزمر: ۲۳) ”اللہ نے بہترین کلام نازل کیا جو ایسی کتاب ہے جس کے مضامین ملتے جلتے اور بار بار دہرائے جاتے ہیں ، جن سے ان لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں جو اپنے ربّ سے ڈرتے ہیں ۔ پھر ان کے چمڑے اور ان کے دل نرم ہوکر اللہ کے ذکر کی طرف راغب ہوجاتے ہیں ۔“ اُمّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سب سے خوبصورت قراء ت اس شخص کی ہے جو پڑھے تو یوں لگے کہ اس کا دل خوفِ الٰہی سے کانپ رہا ہے۔“ (رواہ أبونعیم فی أخبار أصبھان:۲/۵۸، ابن ابی شیبہ ،۵/۴۱۴، ابن ماجہ: ۱/۴۲۵… حدیث کی تحقیق کے لئے دیکھئے: اخلاق حملة القرآن از آجری رحمۃ اللہ علیہ ) اس لئے قاری خواہ کسی بھی لہجے میں ترنم کے ساتھ قراء ت کرے، اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ ان لوگوں کی مشابہت سے بچے جن کاذکر حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں گزر چکا ہے ۔خصوصاًعجمیوں کے لہجوں سے بچنا اور بھی ضروری ہے کیونکہ قرآن عربی زبان میں نازل ہوا ہے ، اسے اہل عرب مثلا قراء ِحجاز و مصر کے لہجوں میں ہی پڑھا جانا چاہئے۔ اسی طرح شیطان اور فحش گویوں کی طرح اچھل اچھل کر اور آہیں بھر بھرکر اٹھکیلیاں کرتے ہوئے پڑھنا اورقواعد ِتجوید سے قطع نظر ہوکرالحان (قواعد ِموسیقی)کے ساتھ آواز میں اتار چڑھاؤ اور مدوجزر پیداکرکے قراء ت کرنا بھی جائز نہیں ہے ،کیونکہ یہ ساری حرکات کلام الٰہی کی عظمت کے سراسر منافی ہیں ۔ اسی طرح یہود و نصاریٰ کے لہجوں کی مشابہت اختیار کرنے سے بچنا بھی بے حد ضروری ہے ، کیونکہ ان کی مشابہت تو تمام معاملات میں حرام ہے،اس صورت میں کیسے جائز ہوسکتی ہے؟ اسی طرح قاری کو چاہئے کہ قراء ت کرتے ہوئے آہ و بکا کرنے سے بچے حتیٰ کہ ان لوگوں کے مشابہ نہ ہوجائے جو تکلیف پہنچنے پر تقدیر الٰہی کے فیصلوں کو تسلیم نہ کرتے ہوئے آہ و بکا اور واویلا کرتے ہیں ۔ (۳) تیسری شرط :یہ ہے کہ جب وہ الحان اور ترنم کے ساتھ قراء ت کرے تو اس کی آواز میں درد اور سوز ہونا چاہئے۔کیونکہ یہی لحن قرآنِ کریم کی عظمت کے شایانِ شان ہے۔ اس لحن سے دل میں اللہ کا خوف اور نصیحت حاصل کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ اس قسم کا اِلحان سامعین کو خشیت ِالٰہی اور رونے پر اُبھارتا ہے اور یہی قرآن کا مقصودِ حقیقی ہے۔ |