بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ فکر و نظر بھارتی مسلمان اور ہم ! پاکستان کا قیام دو قومی نظریہ کی بنیاد پر عمل میں آیا۔ اس کا مرکزی خیال یہ تھا کہ مسلمان اپنے دینی عقائد، تصورِ عبادت، قانون و شریعت، تہذیب و ثقافت اور تاریخی روایات کی بنا پر ہندوؤں سے الگ قوم ہیں ۔ اسلام نے رنگ ونسل، زبان وعلاقہ کی وحدت کی بجائے نظریہ کی وحدت کو مسلم قومیت(ملت() کی بنیاد ٹھہرایا۔ اسلام نے تمام بنی نوع انسان کو ملت ِاسلامیہ اور ملت ِکفریہ میں تقسیم کیا ہے۔ کلیسا کے مذہبی تسلط سے آزادی حاصل کرنے کے لئے یورپ کے فلسفیوں نے ’قومی ریاست‘ کا تصور پیش کیا جو گذشتہ ۴ سو سال سے ان کے ہاں مقبول رہا ہے۔ برصغیر کے مسلمانوں نے جب نظریاتی ریاست اور اسلامی قومیت کا تصور پیش کیا تو کانگریس کے راہنماؤں نے اسے فرقہ وارانہ تعصب قرار دیتے ہوئے انڈیا کی وحدت کے لئے خطرہ قرار دیا۔ مسلمانوں کو علیحدہ ریاست سے محروم رکھنے کے لئے گاندھی، نہرو اور دیگر نیشنلسٹ راہنماؤں نے متحدہ قومیت کا تصور پیش کیا۔ مگر یہ سوچ اس وقت بھی فریب انگیز تھی اور آج بھی غیرحقیقت پسندانہ ہے۔ ۵۵ سال کے بعد بھی دو قومی نظریہ ایک آفاقی صداقت کے طور پر زندہ ہے۔ مہاتما گاندھی نے کہا تھا کہ ہندو اور مسلمان میری دو آنکھیں ہیں ، یہ ماضی کی افسوسناک تاریخ بھول کر بھائیوں کی طرح اکٹھے رہ سکتے ہیں مگر قائداعظم نے اس کو فریب اور مغالطہ آمیز تصور کہا۔ احمدآباد کے حالیہ مسلم کش فسادات نے دو قومی نظریہ کی صداقت کو ایک دفعہ پھر واضح کردیا ہے۔ مسلمانوں اور ہندوؤں کو دو آنکھیں قرار دینے والے گاندھی کے دیس میں مسلمانوں کے لئے اپنے ہی وجود کو باقی رکھنا ایک چیلنج بن گیا ہے۔ آج بھارت میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان اختلاف کی خلیج پرُ ہونے کی بجائے مزید گہری ہوگئی ہے۔ معروف ہندو صحافی نے اپنے حالیہ مضمون میں اعتراف کیا ہے: ”گجرات میں قتل و غارت ایک بدترین واقعہ ہے۔ مگر یہ علامت ہے، اصل مرض نہیں ۔ اصل بیماری ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان وہ فاصلہ ہے جو تقسیم ہند کے ۵۵ سال کے بعد مزید بڑھا ہے۔ ہم نے دنیا کا سب سے زیادہ سیکولر آئین بنایا ہے لیکن ہم اس آئین کو نافذ کرنے کے لئے |