وفات سے بہت صدمہ ہوا۔ آپ نے فرمایا: أجل کانت أمّ العيال وربة البيت” ہاں وہ بچوں کی ماں اور گھر کی منتظمہ تھیں اور اب کوئی نہیں “ تب خولہ رضی اللہ عنہا نے حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کے تجربہ کاری اور سن رسیدگی کا تذکرہ کرکے اجازت مانگی کہ اگر حکم ہو تو میں درمیان میں پڑوں ۔ چونکہ آپ کو سردست ایسی ہی اہل بیت کی ضرورت تھی، آپ نے اجازت دی۔ بات پختہ ہوگئی، نکاح ہوا اور مکہ ہی میں خانہ آباد ہوگئیں ۔ اس کے بعد حضرت عائشہ کی طرف خیال کیا گیا، اس لئے کہ آپ کو ازغیب بشارت ہوچکی تھی۔چنانچہ آپ نے پیغام دیا اور اس وقت آپ کی عمر ۶ برس کامل ہو کرساتویں برس میں داخل ہوچکی تھی (اسی وجہ سے آپ کی عمر کی بابت چھ برس اور کہیں سات برس کا ذکر آتا ہے) نہ اس وجہ سے کہ آپ سے گھر کا کام چلے گا بلکہ محض مبشر من اللہ ہونے کی وجہ سے (کذا فی الطبقات والا ستيعاب)۔ اس نکاح سے بشارتِ ربانی حاصل کرنامطلوب تھا، نہ کہ خانہ آبادی۔ ہاں جن سے کام چلنے والا تھا، وہ خانہ آباد ہوگئیں یعنی حضرت سودہ رضی اللہ عنہا اور روایتہ یہی صحیح ہے ۔ بالفرض حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہی کے ساتھ پہلے نکاح ہونا مان لیاجائے اور وہ بھی بقول آپ کے زیادہ سے زیادہ سولہ برس کی عمر میں تو اس سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا کام چلا۔ کیونکہ ان سے تو گھر آباد ہوا مدینہ میں اور بروقت ضرورت تھی مکہ میں ۔ پس ان سے پہلے نکاح ہوا تو کیا، نہ ہوا تو کیا ۶ کی عمر میں یا ۱۶ کی ! فافھم باقی آپ کے یہ الفاظ کہ وہ بے چاری بڑھیا بھاری بھر کم جس کے لئے ہلنا جلنا بھی مشکل تھا، بھلا گھر کا کام کیا کرسکتی، خلاف تہذیب ہونے کے علاوہ کسی قدر خلافِ واقعہ ہے۔ کیانعوذ باللہ وہ اپاہج تھیں یا گھر میں کدال چلانی تھی۔ کیا حضور کی دل دہی، گھر کے معمولی انتظام اور بچوں کی دیکھ بھال سے بھی قاصر تھیں ۔ پھر تو حضور نے ان سے نکاح کرکے اپنی مشکلات میں ایک اور مشکل کا اضافہ کرلیا۔ دوسری دلیل اور اس پر تنقید کتابوں میں لکھا ہے کہ بعض مرتبہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا میں مقابلہ کی گفتگو ہوجایا کرتی اور یہ صرف ہم عمروں میں ہی ہوا کرتی ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر ہجرت کے وقت ضرور سترہ سال ہوگی۔ اس کے متعلق سوائے اس کے کہ آپ کے قوتِ استدلالیہ کی تعریف کروں اور کیا عرض کروں ۔ اولاً تو حضرت فاطمة الزہرا بحکم فاطمة بضعة منی بالکل اپنے بزرگوار باپ سید المرسلین رحمة للعالمین ا کی نمونہ تھیں ، وہ مقابلہ کی گفتگو کیا جانیں ۔ ثانیاً : بالفرض تسلیم کربھی لیا جائے تو ایسا ہونا لازمی نہیں ۔ثالثاً اس سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت زینب رضی اللہ عنہا دونوں میں گاہے بگاہے (نہ ہونے کے |