اندر کسی کو ہبہ اور عطیہ دیا ہو۔ اگر عطیہ کسی حکومت کی جانب سے ہو تو وہ اسی صورت میں جائز ہوگا جب وہ کسی صحیح خدمت کے صلے میں یا معاشرے کے مفاد کے لئے حکومتی املاک میں سے جائز اور معروف طریقے پر دیا گیا ہو۔ عطیہ دینے کا حق بھی اسی حکومت کو حاصل ہوگا جو شرعی دستور کے مطابق شوریٰ کے طریقہ کے مطابق چلائی جارہی ہو اور جس کا محاسبہ کرنے کا حق اور آزادی قوم کو حاصل ہو۔[1] ملک میں مالی بے قاعدگی بیت المال کو غلط طور پر استعمال کرنے سے پیدا ہوتی ہے۔ اس غلط استعمال کا ایک طریقہ یہ ہے کہ خزانہ غیر مستحق لوگوں کے لئے کھول دیا جائے، اس سے ملکی خزانہ کئی پہلوؤں سے منفی طور پر متاثر ہوتا ہے۔ ایک تو غیر مستحق لوگ ملکی خزانے پر ناروا بوجھ بن جاتے ہیں ۔ خزانہ غلط طور پر استعمال ہونے لگتا ہے۔ حق دار محروم رہ جاتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ لوگوں کو محنت کی بجائے مفت خوری کی عادت پڑ جاتی ہے او رجس ملک کے لوگ محنت سے گریز کرنے لگیں ، اس کی معیشت تباہ ہو کر رہ جاتی ہے۔ اس سلسلے میں شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ اگر بیت المال سے وہ لوگ وظائف اور مستقل امداد لینا شروع کردیں جو درحقیقت ا س کے مستحق نہیں ہوتے تو یہ لوگ حقداروں کا حق مارنے کے مرتکب بھی ہوتے ہیں او رملکی خزانہ بھی غلط طور پر استعمال ہونے لگتا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ اگر اس طرح کی صورت پیدا ہوجائے تو باشندوں کی اکثریت بادشاہ پرانحصار کرنے لگتی ہے اور بیت المال پر بوجھ بن جاتی ہے۔ غیر مستحق لوگ کبھی یہ کہہ کر وظیفہ حاصل کرتے ہیں کہ وہ غازی ہیں اور ملک کے سیاسی راہنما ہیں ۔ وہ کبھی یہ کہہ کر وظائف حاصل کرتے ہیں کہ وہ درباری شاعر ہیں اور بادشاہوں کی درباری شاعروں پر عنایات ہوا ہی کرتی ہیں ۔ وہ یہ وظائف کبھی یہ کہہ کر حاصل کرتے ہیں کہ وہ صوفی اور درویش ہیں اور خلیفہ اس بات کو معیوب سمجھتا ہے کہ وہ ان لوگوں کے حالات کی تفتیش کرے کہ کیا یہ حقیقت میں ان وظائف کے مستحق ہیں بھی یا نہیں ؟… ان کا معاشی انحصار صرف بادشاہوں کی مصاحبت، ان کی خوشامدی، جی حضوری اور ان کی مدح میں چرب زبانی پر ہوتا ہے اور آخر کار یہ ایک ایسا فن بن جاتا ہے کہ ان کے تمام خیالات اور فکریں اس برے فن پر صرف ہونے لگتی ہیں اور وقت کی تباہی کا باعث بن جاتے ہیں ۔[2] ملکی خزانے کے غلط استعمال کی ایک شکل سربراہِ مملکت یا سربراہِ حکومت کے مالیاتی اختیارات بھی ہیں ۔ ان اختیارات کے تحت سرکاری خزانہ سربراہ کی ذاتی ملکیت کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ خصوصی طور پر ایسی مدات جن کا کوئی آڈٹ نہیں ہوتا یا جنہیں آج کی اصطلاح میں (Unforeseen) مدات کہا جاتا ہے۔ ان مدات میں سے عموماً سیاسی رشوتوں کا کام لیا جاتاہے۔ پاکستان کے سیاسی ماحول میں تو اس |