قرآن کریم میں لفظ ’حدیث‘کا معنی ؟ : اسی طرح ایک او رمثال دیکھیں کہ جو لوگ حدیث کا انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے لئے قرآن ہی کافی ہے۔ اب جب وہ قرآن مجید پڑھتے ہیں تو ہر جگہ انہیں نظر آتا ہے کہ حدیث حجت نہیں ہے۔ ایک پڑھے لکھے آدمی ہیں ، انہوں نے کتاب لکھی: ”مقامِ حدیث“ اس میں لکھا ﴿فَبِأيِّ حَدِيْثٍ بَعْدَہُ يُوٴمِنُوْنَ﴾ اس کا ترجمہ کیا: کس حدیث پر وہ ایمان لائیں گے قرآن کے بعد ؟ یہاں حدیث کا انکار کردیا۔ حالانکہ یہاں حدیث کے لغوی معنی مراد ہیں ’بات‘ اور بات کے معنی ہیں یعنی کس بات پر؟ یا مثلاً سورہ لقمان کی یہ آیت پڑھ ڈالی ﴿وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّشْتَرِیْ لَهْوَ الْحَدِيْثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ﴾ (آیت ۶) ”لوگوں میں کوئی ایسا ہے جو اس لیے بیہودگی خریدتا ہے کہ بغیر علم کے اللہ کی راہ سے بہکا دے اوراسی کا مذاق اڑائے، ایسے ہی لوگوں کے لیے رسوا کرنے والا عذاب ہے ۔ اس کا ترجمہ ایک منکر حدیث نے اس طرح کیا ہے کہ ”لوگوں میں سے وہ ہیں جو خریدتے ہیں حدیث کے مشغلے “ جو دماغ میں پہلے سے لایا ہوا خیال /فتورہے تو لھو الحدیث سے وہی مراد لے لیا۔ حالانکہ میں پہلے بتا چکا ہوں کہ ’لہو الحدیث ‘کے معنی ہیں ہر وہ کام/بات جو اللہ کے ذکر سے غافل کرنے والی ہو۔ اور یہ بھی واضح رہے کہ لفظ حدیث جو قرآن مجید میں آیا ہے اس کے معنی بات کے ، کلام کے ہیں ۔ اب یہ کلام اللہ تعالیٰ کا بھی ہوسکتا ہے اور رسول اکرم کا بھی ہوسکتا ہے۔ کلام صحابہ رضی اللہ عنہم اور موٴمنین کا بھی ہوسکتا ہے اوریہ کلام کافروں ، مشرکوں اور منافقوں کا بھی ہوسکتا ہے۔ یہاں لغوی معنی مراد ہیں حدیث کے، شرعی معنی مراد نہیں ہیں ۔ شرعی معنی اور ہیں ، اصطلاحی معنی اور ہیں اور لغوی معنی اور۔ قرآن مجید میں جو حدیث کا لفظ آیا ہے وہ لغت کے لحاظ سے آیا ہے، اس سے حدیث ِرسول مراد نہیں ہے۔ مثلاً قرآن میں آتا ہے ﴿اَللّٰهُ نَزَّلَ أحْسَنَ الْحَدِيْثِ کِتٰبًا مُّتَشَابِهًا مَّثَانِیَ﴾ (الزمر: ۲۳) ”اللہ نے بہترین کلام نازل کیا جو ایسی کتاب ہے جس کے مضامین ملتے جلتے اور بار بار دہرائے جاتے ہیں “ یہاں حدیث سے قرآن مجید مراد ہے یعنی تمام کلاموں میں بہترین کلام یا جیسے قرآنِ مجید میں آتا ہے: ﴿ مَا کَانَ حَدِيْثًا يُّفْتَری وَلٰکِنْ تَصْدِيْقَ الَّذِیْ بَيْنَ يَدَيْهِ وَتَفْصِيْلَ کُلِّ شَيئٍ وَّهُدًی وَّرَحْمَةً لِّقَوْمٍ يُّوٴمِنُوْنَ﴾ (یوسف: ۱۱۱) ”یہ قرآن کوئی ایسی باتیں نہیں جو گھڑ لی گئی ہوں بلکہ یہ تو اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اور اس میں ہر بات کی تفصیل موجود ہے اورایمان لانے والوں کیلئے یہ ہدایت اور رحمت ہے“ حضرت یوسف علیہ السلام کا قصہ بیان کرنے کے بعد فرمایا کہ یہ بات جو ہم نے بیان کی ہے، کوئی گھڑی ہوئی نہیں ہے، کوئی افترا نہیں ہے۔ |