اسے کہا جس برائی کی تم مجھ سے اجازت طلب کررہے ہو اگر وہ برائی کوئی تمہاری ماں کے ساتھ کرے،کیاتم برداشت کرلوگے؟ وہ کہنے لگا:نہیں ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کیا تم جس کے ساتھ برائی کرو گے وہ کسی کی ماں نہیں ہوگی۔پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹی خالہ،خالہ اور دیگر قریبی رشتہ داروں کے نام لے کر اس سے پوچھا کہ اگر اس کے ساتھ کوئی غلط فعل کرے تو کیاتم اسے برداشت کرلوگے وہ کہنے لگا نہیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کیا تم جس کے ساتھ برائی کا ارادہ کرتے تو ہو وہ کسی کی ماں ،بہن،بیٹی نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کے حق میں دعائے خیر کی اور فرمایا:اللہ اس کی عفت کو پاک کردے ا س کی شرمگاہ کومحفوظ کردے۔اس برائی سے اس کے اندر نفرت پیدا کردے۔ا س کےدل میں اپنا خوف اور ڈر پیدا کردے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ا س دعا سے اس شخص کی زندگی میں اتنا انقلاب اور تبدیلی آئی کہ اسکے بعد یہ صحابی کبھی گھر سے باہر نکلتے تو ا پنی نگاہوں اور اعضاء پر اتنا کنٹرول کرتے تھے کہ کسی غیر عورت کی طرف نگاہ بھی نہ پڑنے دیتے۔اسلام ہم سے اس بات کامتقاضی ہے۔کہ ہم اپنے ضمیر کوجھنجوڑیں اور اس برائی سے نفرت کریں ۔کبھی ہم یہ نہیں سوچتے کہ جس برائی کاہم ارتکاب کررہے ہیں اگر یہی حرکت اور عمل کوئی ہمارے گھرآکر کرے تو کیا ہم اسے گوارا کرلیں ۔یہ ذہن اگر بن جائے کہ دوسرے کی عزت کو اپنی عزت سمجھیں تو برائی کے دروازے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند ہوجائیں گے۔ اس برائی کے پھیلانے میں ویڈیوں کاکردار انتہائی گھناؤنا ہے۔ویسے تو ہمارے دل بھارت کے خلاف اورکشمیری مظلوم مسلمانوں کی حمایت میں دھڑکتے ہیں ۔لیکن نوجوان نسل پاکستان کی ازلی دشمن اور بے گناہ کشمیریوں کے قاتل بھارت کی فلمیں بڑے ذوق وشوق سے بلا ناغہ دیکھتے ہیں ۔یہ ہمارا دورُخا کردار ہے۔ جس پر تاریخ شاید ہمیں کبھی معاف نہ کرے مجھے کس کام سے لاہور جانے کا اتفا ق ہوا۔واپسی پر کوچ سوارہونے لگا دیکھا کہ وہ گاڑی خالی ہے لیکن دوسری گاڑیوں کے گرد لوگوں نے جھمگٹا لگایا ہوا تھا۔اس خالی گاڑی میں بیٹھنے کے لیے کوئی تیا ر نہیں تھا۔ڈرائیور شریف النفس تھا۔میرے استفسار پر اس نے بتایا کہ ان گاڑیوں میں وی سی آرہے جبکہ میری گاڑی وی سی آر سے محروم ہے۔اس وجہ سے میری گاڑی میں بیٹھنے سے لوگ کتراتے ہیں میں نے اس بات کا تہیہ کیا ہوا ہے کہ اپنی گاڑی میں اس برائی کو نہیں آنے دوں گا۔رزق اللہ کے ہاتھ میں ہے۔وہ میری مشکلات کو ضرورآسان کرے گا۔خواہ کوئی میری گاڑی میں بیٹھے یا نہ بیٹھے! حکومت وقت کو اس برائی کے سد باب کے لئے ٹھوس اقدامات کے طور پر حدود اللہ کا نفاذ کرنا چاہیے تاکہ من حیث القوم ہم اس برائی سے بچ سکیں ۔لیکن حکومت اس سلسلے میں کسی قسم کا اقدام کرنے سے یکسر گریزاں ہے۔اسے دوسے مسائل سے ہی فرصت نہیں ۔ جو وہ اس طرف نظر دوڑا سکے۔اللہ سے دعاہے کہ اگر موجودہ قیادت اس برائی کے خاتمے کی اہل نہیں تو اس کی جگہ ہمیں بہتر قیادت عطا کرے۔آمین! |