پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد نکاح کیے بھی تو ہجرت کے بعد جب مسلمان اور مشرکین کے درمیان جنگیں چھڑ چکی تھیں ،وہ باہم برسر پیکار تھے اور ہر طرف قتل وغارت کا دور دورہ تھا اور یہ دو ہجری سے آٹھ ہجر ی تک کا نہایت قلیل عرصہ ہے جس کے اندر اللہ نے مسلمانوں کو نصرت وفتح سے سرفراز فرمایا(اور لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہونے لگے)۔۔۔اس نکتہ پر غور کرنے سے یہ حقیقت کھل جاتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر شادی عظمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم مقصد کی آئینہ دار اورایثار وقربانی،احسان جمیل کا مثالی نمونہ تھی۔ بہتان تراش معاندین اسلام کے تمام الزامات بے کار ہیں ۔اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل پر ہویٰ پر ستی کا غلبہ ہوتا تو یقیناً تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم عین جوانی کے عالم میں نوجوان کنواری لڑکیوں سے شادی کرتے۔در اصل بغض وتعصب کی شدت نے ان مغربی مستشرقین کے دلوں کو حق کی واضح روشنی دیکھنے سے اندھا کردیا ہے۔اللہ نے سچ فرمایا ہے: ﴿ بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْبَاطِلِ فَيَدْمَغُهُ فَإِذَا هُوَ زَاهِقٌ﴾(الانبیاء :18) "بلکہ ہم حق کے ہتھیار سے باطل پر ضرب لگاتے ہیں تو وہ باطل کا سرکچل ڈالتا ہے پھر اچانک باطل ملیامیٹ ہوجاتا ہے"[1] آخر میں ہم معروف عیسائی عالم گوسٹاف لیون کابیان نقل کرنا مناسب سمجھتے ہیں جسے علی احمد الجرجادی نے اپنی کتاب حکمۃ التشریع وفلسفتہ کی دوسری جلد کے ص16 پر ذکر کیا ہے،وہ لکھتا ہے ۔ "تعدد زوجات کانظام حقیقت میں ایک مستقل نظام ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی پہلے مشرقی اقوام میں موجود تھا،یہ نظام عہدقدیم سے اہل فارس،یہوداور عربوں میں مروج تھا اور ادیان عالم میں سے کسی دین میں یہ طاقت نہیں کہ وہ اس نظام کو منسوخ کرسکے جسے قرآنی دین نے برقرار رکھا ہے" اس کے بعد لکھتا ہے: "اہل مشرق کا یہ شرعی نظام تعدد ازواج اہل مغرب کے فحش نظام سے گراہواکیسے ہوسکتاہے؟جبکہ مغربی نظام زواج میں محض قانون کی حد تک تو صرف ایک ہی بیوی ہوسکتی ہے جبکہ عادتاً شاذونادر ہی کوئی ایسا شخص ہوگا جو صرف ایک عورت پر قناعت کرتا ہو" |