نہیں کرسکتا۔ فرائض کے علاوہ نوافل کے ذریعہ میرا بندہ میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے حتیٰ کہ میں اس سے محبت کرتا ہوں ، جب میں اس سے محبت کروں تو میں ا س کا کان بن جاتاہوں جس سے وہ سنتا ہے اور آنکھ بن جاتا ہوں ، جس سے وہ دیکھتا ہے اور ہاتھ بن جاتاہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور پاؤں جس سے وہ چلتا ہے، پس وہ میرے ساتھ ہی سنتا ہے، میرے ساتھ ہی دیکھتا ہے اور میرے ساتھ ہی پکڑتا ہے اور میرے ساتھ ہی چلتا ہے (یعنی وہ ہر کام میرے حکم کے مطابق ہی کرتاہے) اور اگر وہ مجھ سے سوال کرتا ہے۔ میں اسے جواب دیتا ہوں اور جب پناہ مانگتا ہے تو اسے پناہ دیتا ہوں اور میں اپنے کرنے والے کام میں کبھی بھی اتنا تردّد نہیں کرتا، جتنا میں اپنے مؤمن بندے کی روح کو قبض کرنے کے وقت کرتا ہوں ۔ وہ موت کو گراں سمجھتا ہے اور میں اس کی ناپسند چیز کو براسمجھتا ہوں اور موت کے سوا اس کے لئے کوئی چارہ بھی نہیں ۔‘‘ اور دین اسلام دو اُصولوں پر مبنی ہے، ایک تو یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں ،دوسرا یہ کہ اسی طرح عبادت کریں جس طرح اس نے بتایا ہے، نہ کہ اپنے طریقے سے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿فَمَنْ كَانَ يَرْجُو لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا﴾ ’’جو شخص اللہ کی ملاقات کی اُمید رکھتا ہے، اس کو چاہئے کہ نیک اَعمال کرے اور اپنے ربّ کی عبادت میں کسی کو شریک نہ ٹھہرائے‘‘ پس عمل صالح وہی ہے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند ہے ۔آپ کو مسنون اور مشروع عمل ہی پسند تھا۔ اس لئے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے تھے: ’’اے اللہ! میرے سارے عمل کو نیک کردے اور اس کو اپنی رضا مندی کے لئے خالص کردے اور اس میں کسی کا حصہ نہ بنا یعنی اس میں خلوص ہی خلوص ہو، ریا کاری ونمود کا شائبہ نہ ہو‘‘ اسی لئے اسلام کے اُصولوں کا دارومدار تین حدیثوں پر ہے، ایک تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان: (۱) ((إنما الأعمال بالنیات وإنما لکل امرء مانوی)) ’’ اَعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور ہر آدمی کو وہی ملے گا جو اس نے نیت کی‘‘ (۲) ((من عمل عملاً لیس علیه أمرنا فھوردّ)) ’’جس نے کوئی ایساکام کیا جس کے متعلق ہمارا کوئی امر نہیں تھا ،وہ مردو د ہے۔‘‘ (۳) یہ کہ ’’حلال اور حرام صاف صاف ظاہر ہیں اور ان کے درمیان کچھ اُمور مشتبہ ہیں جن کو اکثر لوگ نہیں جانتے۔ جو شخص شبہات سے بچ گیا۔ اس نے اپنے دین اور اپنی عزت کو بچا لیا اور جو شخص شبہات میں پڑ گیا وہ حرام میں داخل ہوگیا۔ اس کی مثال اس چرواہے کی ہے، جو چرا گاہ کے ارد گرد مویشیوں کو چراتا ہے، قریب ہے کہ وہ اپنے مویشیوں کو چراہ گاہ میں ڈال بیٹھے۔ خبردار! ہربادشاہ کے لئے چرا گاہ ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی چرا گاہ اس کی حرام کردہ چیزیں ہیں ۔خبردار! جسم میں ایک ٹکڑا ہے اگر وہ درست رہا تو سارا جسم درست رہا اور اگر وہخراب ہوجائے تو سارا جسم خراب ہوجاتا ہے۔ خبردار! وہ دل ہی ہے‘‘ […منقول از فتاویٰ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ : ج ۲۵، ص ۲۹۹ تا ۳۱۷…] |