مقالات ثریا بتول علوی غیراِسلامی دنیا کی یلغار کا مقابلہ دو قومی نظریہ کے فروغ سے ہی ممکن ہے! اِسلام اَمن وآشتی،صلح جوئی اوراِتفاق واِتحاد کا مذہب ہے ۔ اسلام کا کلمہ پڑھ لینے والے تمام مسلمان اُخوت ومودّت کے مضبوط رشتے میں پروئے جاتے ہیں اوران کے مابین کسی قسم کے افتراق وانتشار کو ہوا دینا اسلام کی نگاہ میں مذموم ترین فعل ہے ۔ مذہبی گروہ بندیوں اور فرقہ پرستیوں کی اسلام سے تائید تلاش کرنا اور فرقہ وارانہ عصبیتوں کو اِسلام سے ثابت کرنے کی کوشش کرنا کبھی اسلام کی حقیقی تعبیر نہیں کہلا سکتی ۔ اِسلا م کے نا م لیوا رُحَمَاءُ بَينَهُمْ کے مصداق اور المُؤمن کالجسد الواحد کی تصویر ہونے چاہئیں ۔ لیکن اسی اِسلام کو جب دوسری غیر مسلم قوموں سے سابقہ پیش آتا ہے تو وہاں یہ مجموعی اسلامی مزاج یکسر تبدیل ہو جاتا ہے ۔ قرآن کی تعلیمات یہ ہیں کہ غیر مسلم کو کبھی اپنا دوست نہ سمجھو ،وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور اسلام کے خلاف متحد بھی ۔ اللہ کی حکمت ِبالغہ مسلمانوں کو متعدد بار یہ باور کراتی ہے کہ غیر مسلموں سے امن ودوستی کی توقع رکھناایک کارِ عبث ہے۔ کفار اسلام کے مقابلے میں صرف طاقت کی زبان سمجھتے ہیں ۔ قرآن میں تُرْهِبُوْنَ بِه عَدُوَّ اللّٰهِ وَعَدُوَّكُمْ سے معلوم ہوتا ہے کہ غیروں پراپنا خوف اور رعب مسلط کیے رکھنا ہی ان کے ساتھ چلنے کا واحد راستہ ہے ۔ اسی طرح غیروں کی عادات واَطوار کو اپنانا بھی اسلامی احکامات کے مطابق ایک سنگین جرم ہے ۔غیر مسلموں سے تشبیہ اسی کے ذیل میں آتی ہے ۔اس اعتبا ر سے کہا جا سکتا ہے کہ اسلام مسلمانوں میں باہم کسی تعصب کا شدید مخالف لیکن غیر مسلموں سے مکمل قومی عصبیت کا داعی ہے ۔ زیر نظر مضمون اسی دو قومی نظریہ کی تعبیر ہے کہ دنیا میں دو ہی قومیں بستی ہیں ،ایک مسلمان اور دوسری کفر کی ملت ِواحدۃ ۔ جب تک یہ حقیقت مسلمانوں کو اَزبر نہ ہوگی، دین ودنیا کی کامیابی ان کے قدم نہیں چومے گی۔ قیامِ پاکستان بھی اس دو قومی نظریہ کی بازگشت تھی۔ گذشتہ چند سالوں کے عالمی تعصب کے آئینہ دار مسلسل عالمی واقعات نے اب بھی امت ِمسلمہ کو قرآن کی ان تعلیمات کی حقانیت از بر نہیں کرائی تو پھر ہمیں اپنی عقل نارسا پر ماتم کرنا چاہیے ۔دو قومی نظریہ کی یہی تعبیر درست اور اسلامی تعلیمات کی آئینہ دار ہے ۔اس پر چل کر آئندہ صدی میں مسلمان کامیابی وکامرانی کی منزل پاسکتے ہیں ۔ اسلامی ممالک کا مضبوط بلاک اور کفر کے مقابلہ میں ان کی سیسہ پلائی دیوار ہی ان کی عظمت ِرفتہ دوبارہ لوٹاسکتی ہے۔ گذشتہ نصف صدی میں ،جس میں متعدد اسلامی ممالک دنیا کے نقشے پر ابھرے ، ان اسلامی ممالک کے کافر اتحادیوں نے انہیں ذلت وبیکسی ،بے چارگی اوربے وقاری کے سوا کچھ نہیں دیا، جبکہ کفر باوجود مختلف مذاہب ،مختلف زبانیں اور جداگانہ تاریخ کے مختلف اعتبارسے متحد نظر آتا ہے ۔ اورامت ِمسلمہ انہی کے دامن میں جائے عافیت کی تلاش میں در بدر ماری پھر رہی ہے ۔یہ صورتحال ہمارے اور ہمارے رہنمایانِ قوم کے لئے مقامِ تفکر ہے ، من حیث القو م ہمیں اپنے رویوں پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے ، مسلمان بھائیوں کے ساتھ بھی اور غیرمسلموں کے ساتھ بھی۔ہمارا داخلی تعصب اور اس کے بدترین نتائج آج ہم سب کھلی آنکھوں دیکھ رہے ہیں ۔ اتحادِ امت ہی وقت کی صدا ہے۔ (حسن مدنی) یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں کہ مسلمان تاریخ عالم میں ایک تابناک مقام و مرتبہ رکھتے ہیں ۔ |