اسلام کی اپنی ایک منفرد تہذیب ہے، زندگی کے ہر شعبہ میں مسلمانوں نے ایک ہزار سال تک دنیا کی راہنمائی کی۔ علوم و معارف، فن و ہنر میں تہذیب و تمدن میں ، قلم اور تلوار دونوں میدانوں میں مسلمان تمام اَقوامِ عالم سے آگے تھے۔ مگر بدقسمتی سے گزشتہ تین صدیوں سے ماضی کا وقار و جلال کھو چکے ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر چند خامیاں پیدا ہوگئی ہیں ۔ جنہوں نے بحیثیت ِقوم مسلمانوں کو کمزور کر دیا ہے ان میں سے سب سے بڑی خامی تو ایمان کی کمزوری ہے۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے ﴿ أَنتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ﴾... سورة آل عمران '' یعنی اگر تم صحیح مومن رہے تو تمہی غالب رہو گے'' دوسری کمزوری جس کی نشاندہی قرآنِ پاک فرماتا ہے، وہ تفرقہ و اِنتشار اور ذاتی و گروہی تعصب ہے: ﴿ وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ﴾... سورة الانفال ''یعنی آپس میں جھگڑا نہ کرو وگرنہ تم کمزور ہوجاؤ گے اور تمہارا رعب داب جاتا رہے گا'' تیسری کمزوری نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی ہے: '' ایک وقت ہوگا جب مسلمانوں کی تعداد بہت زیادہ ہوجائے گی مگر دیگر اقوامِ عالم ان پر بھوکے بھیڑیوں کی طرح ٹوٹ پڑیں گی۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا ''یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !کیا اس وقت مسلمانوں کی تعداد تھوڑی رہ جائے گی جو اُن کے ساتھ یہ حادثہ پیش آئے گا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں ،اُن کی تعداد تو بہت ہوگی مگر ان میں ایک بیماری وَھن پیدا ہوجائے گی۔ صحابہ نے سوال کیا یہ وَھن کیا چیز ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:حبّ الدنیا وکراھیة الموت یعنی دنیا سے محبت اور موت سے نفرت'' چنانچہ پورے عالم اسلام پر نظر دوڑا کر دیکھا جائے تو یہ حقیقت آشکارا ہوتی ہے کہ مندرجہ بالا تینوں خامیاں مسلمانوں میں پیدا ہوچکی ہیں ۔ یعنی ایمان کی کمزوری، تفرقہ بازی، دنیا سے پیار اور موت سے خوف۔ بیسویں صدی میں ، اس عالم انتشار میں مسلمانوں کو اُمید کی ایک بہت بڑی کرن دکھائی دی۔ یہ ۱۹۴۷ء میں قیامِ پاکستان کا معجزہ تھا۔ اس کے پس منظر پر غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں نے نعرہ لگایا تھا ''پاکستان کا مطلب کیا : لا إله إلا اللَّہ''... اس سے مراد کلمہ طیبہ کا زبانی وِرد نہ تھا بلکہ یہ ایک مکمل نظامِ زندگی کا خلاصہ ہے۔ پاکستان بنانے کا مطلب ہی یہ تھا کہ یہ کلمہ ہماری معاشرت، معیشت اور سیاست کی بنیاد بنے گا۔ لیکن عملاً صورتِ حال یہ ہے کہ نصف صدی سے زائد گزر جانے کے باوجود ہم اس منزل تک نہیں پہنچ سکے جس کی تلاش میں قوم نکلی تھی۔ اس طرح اُمید کی یہ کرن بھی اس وقت دھندلا چکی ہے۔ |