۷۔ عدلیہ کو ایسے کسی مشورہ کے بارے میں تفتیش کرنے کا حق حاصل نہ ہو گا جو وزیر اعظم کی جانب سے صدر کو دیا جائے گا۔ ۸۔ آرٹیکل ۹۹ کے مطابق صدر کی جانب سے جاری ہونے والے تمام احکامات پر وزیرِ اعظم کے توثیقی دستخط ہونا ضروری ہوں گے۔ ۹۔ وزیر اعظم کے لئے ضروری ہو گا کہ وہ صدر مملکت کو داخلی، خارجی امور اور پارلیمنٹ میں ہونے والے قانون سازی سے متعلق سارے معاملات سے آگاہ کرتا رہے۔ ۱۰۔ صدر کو کسی ٹریبونل یا کسی عدالت کی طرف سے دی گئی مجرم کی سزا معاف کرنے، اس میں کمی کرنے یا اس کو معطل کرنے کا اختیار ہو گا بشرطیکہ وزیر اعظم ایسا کرنے کا مشورہ دے۔ (صہ سوم ص ۳۲ تا ۳۶) ۱۱۔ صدر کو یہ اختیار ہو گا کہ وہ وقتاً فوقتاً پارلیمنٹ کے کسی ایک یا دونوں کا اجلاس طلب کرے یا مشترکہ اجلاس بلائے۔ اسے پارلیمنٹ کو برخواست کرنے کا بھی اختیار ہو گا۔ (ص ۳۸) سپیکر کے سلسلہ میں کہا گیا ہے کہ: ۱۔ انتخابات کے بعد قومی اسمبلی پہلے ہی اجلاس میں سپیکر کا انتخاب کرے گی۔ ۲۔ سپیکر اس اجلاس کی صدارت نہیں کر سکے گا جس میں اس کے خلاف مواخذہ کی تحریک پیش کی جانے والی ہو۔ ۳۔ خود مستعفیٰ ہو جائے یا اسمبلی کا رکن نہ رہے یا اسمبلی کے ریزولیوشن کے ذریعے اس کو عہدے سے الگ کر دیا جائے تو وہ سپیکر نہیں رہے گا۔ (ص ۳۸) وزیر اعظم کے متعلق کہا گیا ہے۔ ۱۔ سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے انتخابات کے بعد کوئی اور کام کیے بغیر قوم اسمبلی اپنے ارکان میں سے کسی ایک مسلم رکن کو بغیر کسی بحث کے بحیثیت وزیر اعظم چن لے گی۔ ۲۔ اس کو اکثریت کی رائے سے انتخاب کیا جائے گا۔ ۳۔ وزیر اعظم اپنے وفاقی وزراء اور وزرائے مملکت کو پارلیمنٹ کے ارکان میں سے منتخب کرے گا اور وہ ان میں سے کسی وزیر کو اس کے عہدے سے سبکدوش کر سکے گا۔ ۴۔ اپنے جانشین کے انتخاب او عہدہ سنبھالنے تک وہ اپنے عہدے کے فرائض ادا کرتا رہے گا۔ ۵۔ جن دنوں میں اسمبلی توڑی جا چکی ہو ان دنوں میں آرٹیکل ۹۲-۹۱ کی رُو سے وزیر اعظم.... کو عہدے سے الگ نہیں کیا جا سکے گا۔ |