پروفیسر منظور احسن عباسی سزائے مرتد پر چند مغالطے اور ان کا دفعیہ قسط دوم اگر یہ فرض بھی کر لیا جائے کہ قرآن میں قتل مرتد کی سزا موجود نہیں ہے بلکہ احادیث سے ثابت ہے تب بھی احادیث کو کسی منطقی یا شرعی دلیل سے مخالفِ قرآن نہیں کہا جا سکتا۔ کیونکہ جرائم کی بے شمار اقسام ایسی ہیں جن کا مرتکب مستوجب سزا قرار دیا گیا ہے۔ حالانکہ ان کا ذکر قرآن کریم میں نہیں ہے۔ بلکہ حدیث شریف میں ہے لہٰذا ایسے حکم کو قرآن کے خلاف نہیں کہا جا سکتا۔ چنانچہ ازروئے حدیث کو مرد مرتد ایسا نہیں جو مستوجب سزائے موت نہ ہو۔ اگر قرآن حکیم سے کسی ایک مرتد کا بھی سزائے موت سے بری ہونا ثابت ہو تو بلاشبہ آپ کہہ سکتے ہیں کہ حدیث کا فیصلہ قرآن کے خلاف ہے۔ مؤلف کتاب کا تمام تر انحصار آیت لا اکراہ فی الدین پر ہے۔ اس آیت کی جو تفسیر و تعبیر وہ کرتے ہیں وہ بجائے خود تحریف کلامِ الٰہی ہے۔ اس آیت کا سیدھا سادہ ترجمہ یہ ہے کہ دین میں جبر نہیں ہے۔ اس کے واضح معنی جو بالعموم کیے جاتے ہیں وہ وہی ہیں جن پر فقہاء، خلفائے راشدین اور خود سرور کائنات کا عمل رہا اور ان کے طرزِ عمل سے اس آیت کے معانی و مطالب کا فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔ السنة قاضيةٌ علي الكتاب کے یہی معنی ہیں۔ فاضل مؤلف کو ان لوگوں پر سخت اعتراض ہے جو یہ کہتے ہیں کہ سنت رسول اللہ کتاب اللہ پر قاضی ہے۔ لیکن کیا وہ اس حقیقت پر غور فرمائیں گے کہ عدالت عالیہ کے ایک جج کی حیثیت میں اگرچہ وہ قانون کی بالا دستی کو تسلیم فرماتے ہیں تاہم کسی قانون کی صحیح تعبیر وہی ہے جس کی تائیدان کے مفصل مقدمات سے ہوتی ہو۔ فریق ثانی کے وکلائے مرافعہ لاکھ سر پٹخیں کہ قانون کی رو سے ملزم پر جرم ثابت نہیں ہوتا لیکن صحیح بات وہی ہے جس کی تائید عدالت کے فیصلہ سے ہوتی ہے۔ |