دنیا کھونا زندگی سے ہاتھ دھونا نہیں تو اور کیا ہے (ابن حیان نے بھی یہی خیال ظاہر فرمایا ہے) غرض آیات قرآنی سے قتل مرتد کے اشارات اور اس حکم کی رہنمائی اسی طرح ہوتی ہے جس طرح قاتلِ عمد کے قتل کی آیات متعلقہ سے ہوتی ہے۔ صراحت کے ساتھ نہ مرتد کے قتل کا حکم مذکور ہے نہ قاتل کے قتل کا۔ دوسری آیات میں قصاص اور نفس بالنفس وغیرہ کے جو الفاظ ہیں ان کی تاویل جو شخص چاہے حسب منشا کر سکتا ہے۔ وہ اتنا مشکل نہیں ہے جتنا مرتد کی سزائے موت سے انکار مشکل ہے کیونکہ مرتد کے لئے قتل کا لفظ صراحتاً موجود نہیں ہے اسی طرح قاتل کے لئے بھی لفظ قتل نہیں ہے۔ قصاص کا لفظ ہے۔ قصاص کے بہت سے معنی ہیں اور عام معنی بدلہ کے ہیں اور بدلہ قتل پر موقوف نہیں ہے۔ مؤلف کتاب کا موقف یہ ہے کہ قرآن میں مرتد کی سزا قتل نہیں ہے لہٰذا اگر احادیث اور فقہ میں ایسا حکم ہے تو وہ قرآن کے خلاف ہے۔ یہ دونوں قضایا درست نہیں ہیں۔ منطقی طور پر یہ استدلال سراسر غلط ہے۔ ان کا یہ ارشاد یہاں تک درست ہے کہ قرآن میں یہ حکم صراحت النص کے ساتھ نہیں ہے لیکن اس حکم پر دلالت اور اشارات کرنے والی نصوص موجود ہیں۔ ایسی ہی نصوص کو ڈاکٹر حمید اللہ نے Indirect Verses سے تعبیر فرمایا ہے۔ اگر یہ فرض بھی کر لیا جائے کہ قرآن میں قتلِ مرتد کی سزا موجود نہیں ہے بلکہ احادیث سے ثابت ہے تب بھی احادیث کو کسی منطقی یا شرعی دلیل سے مخالف نہیں کہا جا سکتا کیونکہ جرائم کی بے شمار اقسام ایسی ہیں جن کا مرتکب مستوجب سزا قرار دیا گیا ہے۔ (مسلسل) |