پروفیسر منظور احسن عباسی سزائے مرتد پر چند مغالطے اور ان کا دفعیہ قسطِ اوّل حال میں ایک کتاب بزبان انگریزی بنام Punishment of Apostacy in Islam (اسلام میں سزائے مرتد)سرکاری ادارۂ ثقافتِ اسلامیہ سے شائع ہوئی ہے۔ اس کتاب کے مؤلف پاکستان کے ماہر قانون سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس مسٹر ایس۔ اے۔ رحمٰن ہیں۔ انہوں نے اپنی کتاب کے مقدمہ میں مصر کے مسیحی تبلیغی جماعت کے سربراہ سیمویل زدمیر کا یہ بیان نقل فرمایا ہے کہ: ’’مصر میں انتہائی سرگرمیوں کے باوجود صرف چند اشخاص نے ترکِ اسلام کر کے مسیحی دین اختیار کیا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ سزائے قتل مرتد کی تلوار ان کے سر پر لٹکتی رہتی ہے۔‘‘ مذکورہ مسیحی تبلیغ کے سربراہ نے اس سلسلہ میں ڈاکٹر واٹسن امریکی مشنری کے حوالہ سے مصر کے اندر مسیحی تبلیغی مشن کی تاریخ ۱۸۵۴ء تا ۱۸۹۵ء کے واقعات کا ذِکر ہے کہ ’’پچھتر مسلمان جو جو اس دوران عیسائی ہو گئے تھے ان سب کو قتل کر دیا گیا۔ کیونکہ اسلام کے مذہبی اور سیاسی قانون میں آزادیٔ ضمیر کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ فاضل مؤلف کو مسیحی مبلّغ کے اس ریمارک سے بڑی ہمدردی ہے اور اس افسوسناک صورتِ حال یا مسیحی مبلغین کی ناکامی کا ذمہ دار انہوں نے علماء و فقہائے اسلام کو ٹھہرایا ہے۔ جنہوں نے قتلِ مرتد کی سزا کو اسلام کا ایک قطعی حکم قرار دیا ہے۔ لیکن ان ائمہ فقہاء یعنی امام مالک، امام ابو حنیفہ، امام شافعی اور امام حنبل رحمہم اللہ کو اس گناہ کا مرتکب سمجھنا زیادتی ہے کیونکہ اس قصور کی جُڑ (نعوذ باللہ)پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچتی ہے۔ جنہوں نے وحی قرآنی کی روح کو سمجھے بغیر مرتد کو واجب القتل قرار دیا اور اس کے بعد خلفائے راشدین نے بھی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم پر بغیر سوچے سمجھے عمل کیا۔ بد قسمتی سے تمام علمائے امت نے بھی اس سے اتفاق کر لیا اب اس حادثاتی صورتِ حال پر محض فقہاء کو مورد الزام ٹھہرانا تقاضائے |