انصاف کے خلاف ہے۔ خود فاضل مؤلف کو اعتراف ہے کہ اب تک ملتِ اسلامیہ کا اس مسئلہ میں اتفاق ہے کہ اسلام سے پھر جانے والا سزائے موت کا مستوجب ہے۔ چنانچہ اس کے حق میں انہوں نے ڈاکٹر حمید اللہ کی تحقیق کا حوالہ دیا ہے (ص ۴)جنہوں نے بتایا ہے کہ اسلام سے پھر جانا سیاسی اور مذہبی بغاوت کے مترادف ہے۔ اور لکھا ہے کہ: ’’پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فیصلے، ان کا نفاذ، صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اتفاق رائے اور بعد کے تمام فقہا کا اجماع نیز قرآن حکیم کی دلالۃ النص (جسے مؤلف نے Indirect Verses سے تعبیر فرمایا ہے)سب نے متفقہ طور پر قرار دیا ہے کہ مرتد کی سزا قتل ہے‘‘ باوجود اس کے مؤلف موصوف کا یہ دعویٰ ہے کہ مرتد کو سزائے موت کا مستوجب قرار دینا اسلام کے خلاف ہے۔ مؤلف کتاب کے اس اعتراف کے باوجود ان کا یہ ارشاد کہ ’’مرتد کو سزائے موت کا مستوجب قرار دینا اسلام کے خلاف ہے۔‘‘ نہ صرف یہ کہ حیرت ناک ہے بلکہ نتیجۃً اس امر کا اعلان ہے کہ تمام ملتِ اسلامیہ میں ایک شخص بھی صاحبِ بصیرت، صائب رائے یا ذی شعور نہ تھا، بلکہ سب دین سے بیگانہ، کور ذوق یا فاتر العقل تھے کہ اسلام کا یہ اجماعی عقیدہ صریحاً قرآن و سنت کے خلاف ہے اور مفسرین و فقہا و علمائے اسلام کی غلط فہمی کے باعث پیدا ہوا جیسا کہ ارشاداتِ مؤلف ممدوح سے مترشح ہوتا ہے۔ کتاب کے مضامین کو حسب ذیل پانچ ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ۱۔ ارتداد اور قرآن ۲۔ ارتداد اور سنت ۳۔ ارتداد اور خلافت راشدہ ۴۔ ارتداد اور فقہاء ۵۔ خلاصہ اور نتیجہ ان کے تمام دلائل کی بنیاد اس مفروضہ پر ہے کہ ارتداد بجائے خود کوئی جرم نہیں ہے۔ البتہ مسلمانوں کے خلاف جو لوگ محاربہ پر اتر آئیں صرف ان کو قتل کرنے کا حکم ہے۔ چنانچہ انہوں نے مرتد کی دو قسمیں بتائی ہیں۔ مرتد حربی اور مرتد غیر حربی جس کو انہوں نے امن پسند |