و عدالت کی اصلاح کے لئے روشن ضمیر قاضی تیار کیے جاتے تھے۔ یہاں قدیم و جدید کا حسین امتزاج تھا۔ اور قاضی کی نگاہ میں اسلامی نظامِ عدالت کی نکھری ہوئی صورت موجود ہوتی تھی۔ تکمیلِ تعلیم کے بعد اسی درسگاہ میں فرائضِ تدریس انجام دینے لگے۔ امیر فواد نے (جو اس وقت ولی عہد تھے) جامعۃ الفواد الاوّل کے نام سے ایک یونیورسٹی قائم کی۔ عزام بے نے یہاں سے بی۔ اے کیا اور لندن کے مصری سفارت خانے میں ملازم ہو گئے۔ فرائضِ منصبی کی ادائیگی ساتھ ساتھ لندن یونیورسٹی میں ایم۔ اے فارسی کی جماعت میں داخلہ لے لیا اور امتیاز کے ساتھ کامیاب ہوئے۔ عالم عرب میں فارسی زبان جاننے والے بہت کم ہیں ۔ عبد الوہاب عزام کا یہ خاص امتیاز تھا کہ انگریزی، ترکی اور عربی کے سات فارسی زبان میں عالمانہ دستگاہ انہیں حاصل تھی۔ واپس مصر آکر جامعۂ فواد سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی اور یونیورسٹی میں پروفیسر کے عہدۂ جلیلہ پر متمکن ہوئے۔ ترقی کرتے کرتے کلیۃ الادب (آرٹس کالج) کے پرنسپل مقرر ہوئے جو جامعہ کا سب سے بڑا کالج تھا۔ کچھ دن وائس چانسلر کی نیابت بھی کی۔ گویا حصولِ تعلیم کے بعد عمر کا زیادہ تر حصہ تعلیم و تدریس میں گزارا۔ ۵۰۹ء یا ۵۱۹ء میں انہیں دوبارہ سفارتی ذمہ داریوں کے لئے چنا گیا۔ پہلے سعودی عرب اور بعد ازاں پاکستان میں اپنی مملکت کے سفیر مقرر ہوئے۔ علامہ اقبال کے کلام سے دلچسپی: لندن یونیورسٹی میں انہوں نے ایک صوفی شاعر کی حیثیت سے اقبال کا نام سنا مگر ان دنوں ان کی انگریزی اتنی کمزور تھی کہ اپنے ہم جماعتوں کی گفتگو سے اقبال کی صحیح معرفت حاصل نہ کر سکے۔ قاہرہ میں محمد عاکف بے ترکی کے شاعر اسلام مقیم تھے اور عزام بے سے ان کے دوستانہ مراسم تھے۔ عاکف کو افغانستان سے ترکی کے سفیر نے ’’پیامِ مشرق‘‘ کا ایک نسخہ بھیجا تھا۔ عاکف نے بہت سے شعروں کے سامنے اپنے ذوقِ نظر کے مطابق ’’نفیس‘‘ اور ’’انفس‘‘ کے الفاظ لکھے ہوئے تھے۔ یہ نسخہ عزام بے کی نظروں سے گزرا۔ بعد میں مثنوی اسرار و رموز دستیاب ہوئی۔ دونوں دوستوں نے اجتماعی مطالعہ کیا۔ عزام بے شاعر انسانیت اقبال سے بہت متاثر ہوئے اور اقبال پر لکھنا شروع کیا۔ برصغیر ہند و پاک کا سفر: ۱۹۴۷ء میں ایشیائی کانفرنس میں شرکت کے لئے ہندوستان آئے۔ تقسیم ملک کی وجہ سے حالات |