کے لئے انہیں کسی دوسری جگہ جانے کی ضرورت ہی نہ تھی کیونکہ ان دنوں مدینہ میں تابعین علماء کی اک بڑی اکثریت موجود تھی۔ رحلہ مؤرخین: علومِ شرعیہ میں چوتھا نمبر علمِ تاریخ کا ہے۔ جس میں گزشتہ واقعات و حادثات اور مشاہیر کے حالات بیان کیے جاتے ہیں ۔ اس کا ایک مستقل حصہ تو علم اسماء الرجال ہے جس میں راویانِ حدیث کی زندگی زیرِ بحث آتی ہے تاکہ ان کی تعدیل یا جرح سے حدیث کی صحت و ضعف معلوم ہو۔ ظاہر ہے کہ یہ کام محدثین کا ہے جنہوں نے نہ صرف راویانِ حدیث کے حالات معلوم کرنے کے لئے دور دراز کے سفر کیے بلکہ نقد و جرح کے اصول وضع کر کے ’’مصطلح الحدیث‘‘ کا ایک مستقل علم ایجاد کیا۔ علم تاریخ کے اس شعبہ کے لئے تو محدثین کے رحلات کا ذِکر گزر چکا ہے اور متقدمین و متاخرین کی عظیم الشان تصنیفات اس کی عظمت اور اہمیت پر شاہد ہیں ۔ باقی رہے دین و دنیا کی ممتاز شخصیتوں کے حالاتِ زندگی تو اس سلسلہ میں بھی بہت بڑا کم محدثین ہی نے کیا کیونکہ علم تاریخ بھی شرعی علم اور قرآنِ کریم کے پنجگانہ علوم[1] میں سے ایک ہے بلکہ محدثین نے اپنے ذوقِ تحقیق سے اس فن کو اتنی ترقی دی کہ انہی کے فیضِ کرم سے اس علم کو اعتماد و وقار حاصل ہوا۔ گویا علم تاریخ میں تحقیق و تنقید کی یہ ریت ڈالنا مسلمانوں کا ایک عظیم الشان کارنامہ ہے۔ لیکن محدثین کے علاوہ کئی دوسرے مؤرخین نے بھی اس سلسلہ میں سفر کی صعوبتیں برداشت کیں اور اپنے اپنے ذوق کے مطابق تاریخ کے مختلف حصوں پر مشتمل معلوماتی مواد اکٹھا کیا۔ اگرچہ یہ لوگ تحقیق و تنقید کا محدثانہ معیار تو قائم نہ رکھتے تھے تاہم علماء نے ان کے کام کی قدر کی اور اسے تاریخ میں شامل رکھا کیونکہ تاریخ کا وہ حصہ جسے کوئی شرعی حیثیت حاصل تھی، اسے تو محدثین نے حدیث ہی کا حصہ |