انہی کے اجتہاد [1]و تفقہ پر اعتماد کیا جاتا تھا اور یہ علماء شرعی علومِ (علوم عالیہ مثل قرآن، حدیث، فقہ اور تاریخ وغیرہ) ہوں یا علومِ عربیہ (علومِ آلیہ) سب کتاب و سنت کی خدمت ہی کی غرض سے سیکھتے تھے اور ان سے کتاب و سنت میں اجتہاد کر کے فتویٰ دیا کرتے تھے۔ اس لئے یہی لوگ فقہاء تھے (جیسا کہ شاہ ولی اللہ کے الفاظ ’’فقہاءِ [2]محدثین‘‘ جو انہوں نے اپنی ایک وصیت میں ان کا طریقہ پسند فرماتے ہوئے اسے اختیار کرنے کے متعلق کہے، سے بھی ظاہر ہے) لیکن بعد کے ادوار میں جیسا کہ حدیث اور تفسیر نے علیحدہ علیحدہ فن کی حیثیت اختیار کر لی۔ اسی طرح فقہ و قانون کا شعبہ بھی الگ شمار کیا جانے لگا اور چونکہ اجتہاد اور استنباطِ مسائل کے لئے سفر کی مشکلات کے بجائے حضر کے آرام اور یکسوئی کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے اور اس سلسلہ میں وہی لوگ گھر بار چھوڑتے ہیں جو شوقِ علم میں علماء یا مدارس کے متلاشی ہوتے ہیں ۔ یا وہ لوگ علماء کرام اور مفتیانِ عظام کی طرف سفر کرتے ہیں جن کو کسی اہم مسئلہ میں ان کی ضرورت ہوتی ہے اور ظاہر ہے یہ ضرورت ایسے ادوار میں بہت کم پیش آتی ہے جبکہ علم کا دور دورہ ہو۔ اس لئے فقہاءِ محدثین کے علاوہ دوسرے فقہاء کے علمی رحلات بہت کم ہیں ۔ مثلاً فقہاء میں زیادہ شہرت ائمہ اربعہ کو حاصل ہے لیکن ان میں سے علمی سفر زیادہ تر امام شافعی رحمہ اللہ اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ ، جن کا شمار فقہائے محدثین میں ہوتا ہے نے کیے ہیں اور جہاں جہاں گئے وہاں اپنے علمی اثرات بھی چھوڑے، لیکن اس کے برعکس امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا صرف ’’سفرِ حجاز‘‘ ہی ثابت ہے لیکن وہ بغرضِ حج بھی ہو سکتا ہے اور امام مالک رحمہ اللہ نے تو مدینہ منورہ کو اس طرح لازم پکڑا کہ وہیں کے ہو کے رہ گئے، وہ اشد ضرورتوں میں بھی وہاں سے نکلنا گوارا نہ کرتے تھے۔ غالباً اس کی وجہ یہ ہے کہ حصول علم |