گئے جو قادر مطلق ہے جو وحده لا شریک ہے جو ساری دنیا کا رب ہے، ہم نے اس سے منہ موڑا، اس نے ہمیں فراموش کر دیا، ہم نے اس کے قرآن اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی لاج نہ رکھی، اس نے ہمیں رسوا کیا۔ محترم بزرگو! بھائیو! بہنو! برا ماننے کی بات نہیں ، اگر مذموم افعال کا مرتکب ہونا اور ان سے نہ بچنا گناہ نہیں تو ان افال کی نشاندہی کرنا بھی قطعاً گناہ نہیں۔ یہ غلطیاں ، یہ گناہ، یہ جرائم جن کے ہم مجرم ہیں ، اسی بات کے مقتضی تھے کہ ہم ذلیل و رسوا ہوتے، شکست سے وچار ہوتے اور پتھر کی بے جان مورتیوں کو خدا سمجھنے والے ہندو کے ہاتھوں ، جس کے سامنے نہ کوئی نصب العین ہے اور نہ کوئی مقصدِ حیات، ہزیمت اُٹھاتے۔ خداوند کریم نے تو صحابہ کرام تک کو معاف نہ کیا اور ایک چھوٹی سی غلطی کی، جو غفلت سے ان سے سرزد ہو گئی تھی، اتنی کڑی سزا دی کہ خود ذاتِ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم ) بھی اس کی زد سے محفوظ نہ رہی۔ کیا جنگِ احد کا واقعہ اس بات کا جیتا جاگتا ثبوت نہیں ہے؟ آئیے خداوند کریم سے اپنے گناہوں کی معافی مانگیں ، وہ بڑا غفور و رحیم ہے۔ اگر ہم نے سچے دل سے اسے پکارا اور آئندہ کے لئے انہی غلطیوں کا اعادہ نہ کرنے کا عزم صمیم کر لیا جن کی وجہ سے ۱۶ دسمبر ۱۹۷۱ کا منحوس ترین واقعہ پیش آیا، تو ہم نہ صرف مشرقی پاکستان کو دوبارہ واپس لے سکیں گے بلکہ ظالموں سے ان کے ظلم کا انتقام بھی لے سکیں گے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اگر ہم نے اپنی اصلاح نہ کی اور اپنی موجودہ حالت پر مطمئن رہے، اگر ہماری زندگیوں میں انقلاب نہ آیا تو ہم خدانخواستہ مشرقی پاکستان کی طرح مغربی پاکستان کو بھی کھو بیٹھیں گے، ہم تباہ و برباد ہو جائیں گے اور ہمارا ملک سامراجیوں کے عزائم، سازشوں اور کفر سامانیوں کا اکھاڑہ بن جائے گا۔ خدا کرے ایسا کبھی نہ ہو! اور اگر ہم واقعی یہ چاہتے ہیں تو پھر ہمیں متحد اور منظم ہو کر یہ عہد کرنا چاہئے کہ ہمارا بچہ بچہ سپاہی بن جائے گا اور ہمارا ہر فرد دشمن کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائے گا اور ہم جو کچھ بھی ہیں اور جہاں بھی ہیں اپنی بقا اور خدا کے دین کی سربلندی کے لئے اس حد تک انفرادی اور اجتماعی کوششوں کو بروئے کار لائیں گے کہ دنیا ایک دفعہ پھر یہ ماننے پر مجبور ہو جائے۔ کہ ان لوہے کے چنوں کو چبانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے ۔ |